Anwar Sadiqui

انور صادقی

انور صادقی کی غزل

    ہم ان سے ٹوٹ کر ملتے ہیں مل کر ٹوٹ جاتے ہیں

    ہم ان سے ٹوٹ کر ملتے ہیں مل کر ٹوٹ جاتے ہیں تماشہ ہے کہ شیشے سے بھی پتھر ٹوٹ جاتے ہیں میں ہوں وہ سخت جاں ہے جس کی جرأت اتنی مستحکم مرے سینے تک آتے آتے خنجر ٹوٹ جاتے ہیں جو رشتے ہوتے ہیں قائم فقط مطلب پرستی پر وہی رشتے یقیناً خود ہی اکثر ٹوٹ جاتے ہیں جفا اہل وفا پر کرکے جب احساس ...

    مزید پڑھیے

    نہ میرا حسن ظن سمجھا نہ انداز سخن دیکھا

    نہ میرا حسن ظن سمجھا نہ انداز سخن دیکھا اگر دیکھا تو دنیا نے دریدہ پیرہن دیکھا کہیں حسن تکلم تو کہیں حسن بدن دیکھا مگر ارباب حق کو اس جہاں میں خستہ تن دیکھا صلیب برگ کا ہر اشک شبنم روئے گل پر تھا یہ منظر تو نے کیا اے صبح کی پہلی کرن دیکھا بدن کی کھال کھنچوا دی ندائے قم باذنی ...

    مزید پڑھیے

    ادھر کچھ اور کہتی ہے ادھر کچھ اور کہتی ہے

    ادھر کچھ اور کہتی ہے ادھر کچھ اور کہتی ہے یہ دنیا چاہتی کچھ ہے مگر کچھ اور کہتی ہے یہ دل کچھ اور کہتا ہے نظر کچھ اور کہتی ہے مگر ان کی نگاہ معتبر کچھ اور کہتی ہے قصیدے پڑھ رہے ہو تم چمن کی شان میں لیکن ہر اک جھلسی ہوئی شاخ شجر کچھ اور کہتی ہے بظاہر ہیں جدید اسلوب کی آرائشیں دل ...

    مزید پڑھیے

    اک خودی بے خودی کے اندر ہے

    اک خودی بے خودی کے اندر ہے راز خود راز ہی کے اندر ہے اک قیامت کوئی قیامت سی زیر لب خامشی کے اندر ہے ایک اک قطرہ گریۂ شبنم پھول جیسی ہنسی کے اندر ہے ہنس پڑے ہم تو رو پڑیں آنکھیں غم بھی شاید خوشی کے اندر ہے دن ڈھلے گا تو رات آئے گی تیرگی روشنی کے اندر ہے حسن آرائیاں بجا لیکن دل ...

    مزید پڑھیے