ہم ان سے ٹوٹ کر ملتے ہیں مل کر ٹوٹ جاتے ہیں
ہم ان سے ٹوٹ کر ملتے ہیں مل کر ٹوٹ جاتے ہیں
تماشہ ہے کہ شیشے سے بھی پتھر ٹوٹ جاتے ہیں
میں ہوں وہ سخت جاں ہے جس کی جرأت اتنی مستحکم
مرے سینے تک آتے آتے خنجر ٹوٹ جاتے ہیں
جو رشتے ہوتے ہیں قائم فقط مطلب پرستی پر
وہی رشتے یقیناً خود ہی اکثر ٹوٹ جاتے ہیں
جفا اہل وفا پر کرکے جب احساس ہوتا ہے
وہیں دل سوز و دل آزار دلبر ٹوٹ جاتے ہیں
کبھی آندھی سے تتلی کو بھی جنبش کچھ نہیں ہوتی
کبھی شاہین کے مضبوط شہ پر ٹوٹ جاتے ہیں
نظر آخر نظر ہے کام کر جاتی ہے پل بھر میں
حقیقت آئنوں کی کیا ہے پتھر ٹوٹ جاتے ہیں
ترے اشعار میں وہ سوز ہے وہ درد ہے پنہاں
ترے اشعار سن کر ہم تو انورؔ ٹوٹ جاتے ہیں