اک خودی بے خودی کے اندر ہے

اک خودی بے خودی کے اندر ہے
راز خود راز ہی کے اندر ہے


اک قیامت کوئی قیامت سی
زیر لب خامشی کے اندر ہے


ایک اک قطرہ گریۂ شبنم
پھول جیسی ہنسی کے اندر ہے


ہنس پڑے ہم تو رو پڑیں آنکھیں
غم بھی شاید خوشی کے اندر ہے


دن ڈھلے گا تو رات آئے گی
تیرگی روشنی کے اندر ہے


حسن آرائیاں بجا لیکن
دل کشی سادگی کے اندر ہے


نعرۂ انقلاب اے انورؔ
آج بھی شاعری کے اندر ہے