ادھر کچھ اور کہتی ہے ادھر کچھ اور کہتی ہے
ادھر کچھ اور کہتی ہے ادھر کچھ اور کہتی ہے
یہ دنیا چاہتی کچھ ہے مگر کچھ اور کہتی ہے
یہ دل کچھ اور کہتا ہے نظر کچھ اور کہتی ہے
مگر ان کی نگاہ معتبر کچھ اور کہتی ہے
قصیدے پڑھ رہے ہو تم چمن کی شان میں لیکن
ہر اک جھلسی ہوئی شاخ شجر کچھ اور کہتی ہے
بظاہر ہیں جدید اسلوب کی آرائشیں دل کش
مگر تحقیق ارباب ہنر کچھ اور کہتی ہے
پتہ صحت کا چلتا ہے مریض غم کے چہرے سے
مگر سنجیدگیٔ چارہ گر کچھ اور کہتی ہے
تری پوشاک کے پیوند ہیں افلاس کے مظہر
تری با رعب شخصیت مگر کچھ اور کہتی ہے
بنانے کو بنا لیں ہم بھی شیشوں کے مکاں انورؔ
مگر یاروں کی سنگ افگن نظر کچھ اور کہتی ہے