Anwar Sadeed

انور سدید

ممتاز پاکستانی نقاد، محقق، شاعر اور کالم نویس؛ ’اردو ادب کی تحریکیں‘ اور’اردو افسانے میں دیہات کی پیش کش‘ کے علاوہ درجنوں اہم کتابوں کے مصنف؛ کئی اہم اخبارات اور ادبی رسالوں کو ادارتی تعاون دیا

Prominent Pakistani critic, researcher and columnist; an author of many books apart from 'Urdu Adab ki Tehreekein' and 'Urdu Afsaane Mein Dehaat ki Peshkash'; also assisted in editing several literary journals and newspapers

انور سدید کی غزل

    سانسوں میں مل گئی تری سانسوں کی باس تھی

    سانسوں میں مل گئی تری سانسوں کی باس تھی بہکی ہوئی نظر تھی کہ پھر بھی اداس تھی بے شک شکست دل پہ وہ مبہوت رہ گیا لیکن شکست دل میں بھی زندہ اک آس تھی گر تو مرے حواس پہ چھایا ہوا نہ تھا ہستی وہ کون تھی جو مرے دل کے پاس تھی بارش سے آسمان کا چہرہ تو دھل گیا دھرتی کے ہونٹ پر ابھی صدیوں ...

    مزید پڑھیے

    سفینہ لے گئے موجوں کی گرم جوشی میں

    سفینہ لے گئے موجوں کی گرم جوشی میں ہزیمت آئی نظر جب کنارا کوشی میں نشہ چڑھا تو زباں پر نہ اختیار رہا وہ منکشف ہوئے خود اپنی بادہ نوشی میں بنا لیا اسے ثانی پھر اپنی فطرت کا سکوں جو ملنے لگا ان کو زہر نوشی میں قبول رب کریم و رحیم نے کر لی مری زباں پہ جو آئی دعا خموشی میں کھلی ...

    مزید پڑھیے

    موسم سرد ہواؤں کا

    موسم سرد ہواؤں کا میرے گھر سے نکلا تھا چپ طاری تھی دنیا پر ایک فقط میں رویا تھا وہ جو دل میں طوفاں تھا قطرہ قطرہ برسا تھا دکھ کے طاق پہ شام ڈھلے کس نے دیا جلایا تھا اب کے موسم برکھا کا برقعہ پہن کے نکلا تھا ساٹھویں سال کے آنے پر پہلی بار میں ہنسا تھا آگ لگی تھی دریا میں لیکن ...

    مزید پڑھیے

    آرزو نے جس کی پوروں تک تھا سہلایا مجھے

    آرزو نے جس کی پوروں تک تھا سہلایا مجھے خاک آخر کر گیا اس چاند کا سایہ مجھے گھپ اندھیرے میں بھی اس کا جسم تھا چاندی کا شہر چاند جب نکلا تو وہ سونا نظر آیا مجھے آنکھ پر تنکوں کی چلمن ہونٹ پر لوہے کا قفل اے دل بے خانماں کس گھر میں لے آیا مجھے کس قدر تھا مطمئن میں پیڑ کے سائے ...

    مزید پڑھیے

    تو بھی کر غور اس کہانی پر

    تو بھی کر غور اس کہانی پر جو لکھی جا رہی ہے پانی پر یہ زمیں زر اگائے گی اک دن رکھ یقیں اپنی کلبہ رانی پر اس کی بے محوری پہ غور نہ کر رحم کھا اس کی بے زبانی پر گرچہ مشکل تلاش تھی اس کی گھر ترا مل گیا نشانی پر ان سے معنی کشید کر اپنے نقش ابھرے ہیں جو بھی پانی پر قائم انور سدیدؔ نے ...

    مزید پڑھیے

    زور سے آندھی چلی تو بجھ گئے سارے چراغ (ردیف .. ن)

    زور سے آندھی چلی تو بجھ گئے سارے چراغ گم ہوئے جاتے ہیں تاریکی میں منظر اور میں ہاتھ سے بچوں کے نکلے میری جھولی میں گرے بن گئے ہیں دوست یہ بچوں کے پتھر اور میں پر نہیں لیکن میسر طاقت پرواز ہے دیکھیے اڑتے فضاؤں میں کبوتر اور میں اب طمانیت بہت محسوس ہوتی ہے مجھے ہو گیا ہے ہم سخن ...

    مزید پڑھیے

    دیوار پر لکھا نہ پڑھو اور خوش رہو

    دیوار پر لکھا نہ پڑھو اور خوش رہو کہتا ہے جو گجر نہ سنو اور خوش رہو اپنائیت کا خواب تو دیکھو تمام عمر بیگانگی کا زہر پیو اور خوش رہو کانٹے جو دوستوں نے بکھیرے ہیں راہ میں پلکوں سے اپنی آپ چنو اور خوش رہو باتیں تمام ان کی سنو گوش ہوش سے اپنی طرف سے کچھ نہ کہو اور خوش رہو وہ کج ...

    مزید پڑھیے

    خوابوں کی تفصیل بتا کر جائیں گے

    خوابوں کی تفصیل بتا کر جائیں گے جو اٹھی ہے دھول بٹھا کر جائیں گے آپ اگر چاہیں تو ہاں آرام کریں ہم تو بس آواز لگا کر جائیں گے کہتے ہیں پیمان نبھانا مشکل ہے ہم اپنا پیمان نبھا کر جائیں گے جذبے نے جو رنگ نکھارے آنکھوں میں ان سے ہم تصویر بنا کر جائیں گے آپ نے جو دیوار اساری نفرت ...

    مزید پڑھیے

    آرزو تھی یہ بکھیریں اپنی کرنیں صبح تک

    آرزو تھی یہ بکھیریں اپنی کرنیں صبح تک روتے روتے بجھ گئی ہیں ساری شمعیں صبح تک شب کی مٹھی میں پرندوں کی طرح وہ سو گئیں ہو گئیں زندہ ہتھیلی پر لکیریں صبح تک وقت کی گزری عبارت کی تلاوت کے لیے رات کی تنہائیوں میں آؤ گھومیں صبح تک دن کا سورج ان پہ لکھے گا انوکھے تبصرے ہم نے جو تالیف ...

    مزید پڑھیے

    عہد حاضر اک مشین اور اس کا کارندہ ہوں میں

    عہد حاضر اک مشین اور اس کا کارندہ ہوں میں ریزہ ریزہ روح میری ہے مگر زندہ ہوں میں میں ہوں وہ لمحہ جو مٹھی میں سما سکتا نہیں پل میں ہوں امروز و ماضی پل میں آئندہ ہوں میں وہ جو مجھ کو پھینک آئے بھیڑیوں کے سامنے کیا گلہ شکوہ کہ ان سے آپ شرمندہ ہوں میں میرے لفظوں میں اگر تاب و ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3