تو بھی کر غور اس کہانی پر
تو بھی کر غور اس کہانی پر
جو لکھی جا رہی ہے پانی پر
یہ زمیں زر اگائے گی اک دن
رکھ یقیں اپنی کلبہ رانی پر
اس کی بے محوری پہ غور نہ کر
رحم کھا اس کی بے زبانی پر
گرچہ مشکل تلاش تھی اس کی
گھر ترا مل گیا نشانی پر
ان سے معنی کشید کر اپنے
نقش ابھرے ہیں جو بھی پانی پر
قائم انور سدیدؔ نے رکھا
ارتکاز اپنی زندگانی پر