Anwar Sadeed

انور سدید

ممتاز پاکستانی نقاد، محقق، شاعر اور کالم نویس؛ ’اردو ادب کی تحریکیں‘ اور’اردو افسانے میں دیہات کی پیش کش‘ کے علاوہ درجنوں اہم کتابوں کے مصنف؛ کئی اہم اخبارات اور ادبی رسالوں کو ادارتی تعاون دیا

Prominent Pakistani critic, researcher and columnist; an author of many books apart from 'Urdu Adab ki Tehreekein' and 'Urdu Afsaane Mein Dehaat ki Peshkash'; also assisted in editing several literary journals and newspapers

انور سدید کی غزل

    دشمن تو میرے تن سے لہو چوستا رہا

    دشمن تو میرے تن سے لہو چوستا رہا میں دم بخود کھڑا ہی اسے دیکھتا رہا جو پھول جھڑ گئے تھے جو آنسو بکھر گئے خاک چمن سے ان کا پتا پوچھتا رہا میں پار کر چکا تھا ہزیمت کی منزلیں ہر چند دشمنوں کے برابر کھڑا رہا پلکوں پہ جھولتی ہوئی شفاف چلمنیں کل رات میرا ان سے عجب سلسلہ رہا اس سنگ دل ...

    مزید پڑھیے

    ہر سمت سمندر ہے ہر سمت رواں پانی

    ہر سمت سمندر ہے ہر سمت رواں پانی چھاگل ہے مری خالی سوچو ہے کہاں پانی بارش نہ اگر کرتی دریا میں رواں پانی بازار میں بکنے کو آ جاتا گراں پانی خود رو ہے اگر چشمہ آئے گا مری جانب میں بھی وہیں بیٹھا ہوں مرتا ہے جہاں پانی کل شام پرندوں کو اڑتے ہوئے یوں دیکھا بے آب سمندر میں جیسے ہو ...

    مزید پڑھیے

    سیاہیوں کا نگر روشنی سے اٹ جائے

    سیاہیوں کا نگر روشنی سے اٹ جائے بہت طویل ہے یارب یہ رات کٹ جائے زمیں کا رزق ہوں لیکن نظر فلک پر ہے کہو فلک سے مرے راستے سے ہٹ جائے تمام رات ستارہ یہی پکارتا تھا ہوا کے ساتھ چلو بادباں نہ پھٹ جائے مری غزل کا ہے انورؔ سدید یہ حاصل متاع درد مرے دوستوں میں بٹ جائے

    مزید پڑھیے

    تلاش جس کو میں کرتا پھرا خرابوں میں

    تلاش جس کو میں کرتا پھرا خرابوں میں ملا وہ شخص مجھے رات میرے خوابوں میں میں اس کو غرفۂ دل میں بھلا چھپاؤں کیا جو لفظ لفظ ہے بکھرا ہوا کتابوں میں دم وصال تری آنچ اس طرح آئی کہ جیسے آگ سلگنے لگے گلابوں میں وہ آنکھ جس سے غزل میری اکتساب ہوئی وہ آنکھ جاگتی رہتی ہے میرے خوابوں ...

    مزید پڑھیے

    اس کی انا کے بت کو بڑا کر کے دیکھتے

    اس کی انا کے بت کو بڑا کر کے دیکھتے مٹی کے آدمی کو خدا کر کے دیکھتے مایوسیوں میں یوں ہی تمنا اجاڑ دی اٹھے ہوئے تھے ہاتھ دعا کر کے دیکھتے دشمن کی چاپ سن کے نہ خاموش بیٹھتے جو فرض تم پہ تھا وہ ادا کر کے دیکھتے بے مہریٔ زمانہ کا شکوہ فضول ہے نکلے تھے گھر سے گر تو صدا کر کے دیکھتے اس ...

    مزید پڑھیے

    اپنے دل کی عادت ہے شہزادوں والی

    اپنے دل کی عادت ہے شہزادوں والی جلتی رکھتا ہے قندیل مرادوں والی ویرانے پر بن برسا اک بادل ہوں میں بوجھل آنکھیں اور صورت ناشادوں والی پنکھ ہلا کر شام گئی ہے اس آنگن سے اب اترے گی رات انوکھی یادوں والی دل کے طاق میں روزانہ ہی سجاتا ہوں میں اک دن دیکھی مورت سرخ لبادوں والی اب تک ...

    مزید پڑھیے

    تجھ کو تو قوت اظہار زمانے سے ملی

    تجھ کو تو قوت اظہار زمانے سے ملی مجھ کو آزادہ روی خون جلانے سے ملی قریۂ جاں کی طرح ان پہ اداسی تھی محیط در و دیوار کو رونق ترے آنے سے ملی یوں تسلی کو تو اک یاد بھی کافی تھی مگر دل کو تسکین ترے لوٹ کے آنے سے ملی میں خزاں دیدہ شجر کی طرح گمنام سا تھا مجھ کو وقعت تری تصویر بنانے سے ...

    مزید پڑھیے

    پیلے پیلے چہروں میں ابھری ہے آج کی شام

    پیلے پیلے چہروں میں ابھری ہے آج کی شام کر سکتا ہوں کیوں کر میں یہ شام تمہارے نام سیل زماں میں ڈوب گئے مشہور زمانہ لوگ وقت کے منصف نے کب رکھا قائم ان کا نام شہرت عام میں زریں تمغے تھے دل کی تسکین لیکن قبر کے کتبے پر کب درج ہوئے انعام جشن مروت میں لوگوں کی اونچی اڑی پتنگ مرگ مروت ...

    مزید پڑھیے

    کاسہ لیسوں نے جو تھی نذر اتاری تیری

    کاسہ لیسوں نے جو تھی نذر اتاری تیری وہی لے ڈوبی تجھے ہشت ہزاری تیری پوچھا جائے گا دور ہمایونی کا رو بکار آج ہے سرکار سے جاری تیری اس کا دیدار ہمہ وقت عبادت میری آنکھ نے دل پہ جو تصویر اتاری تیری ہم نے ہر سمت بچھا رکھی ہیں آنکھیں اپنی جانے کس سمت سے آ جائے سواری تیری ترک الفت ...

    مزید پڑھیے

    حد نظر سے مرا آسماں ہے پوشیدہ

    حد نظر سے مرا آسماں ہے پوشیدہ خیال و خواب میں لپٹا جہاں ہے پوشیدہ چلا میں جانب منزل تو یہ ہوا معلوم یقیں گمان میں گم ہے گماں ہے پوشیدہ پلک پہ آ کے ستارے نے داستاں کہہ دی جو دل میں آگ ہے اس کا دھواں ہے پوشیدہ افق سے تا بہ افق ہے سراب پھیلا ہوا اور اس سراب میں سارا جہاں ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3