Amit Sharma Meet

امت شرما میت

امت شرما میت کی غزل

    اس مٹی کو ایسے کھیل کھلایا ہم نے

    اس مٹی کو ایسے کھیل کھلایا ہم نے خود کو روز بگاڑا روز بنایا ہم نے جو سوچا تھا وہ تو ہم سے بنا نہیں پھر جو بن پایا اس سے جی بہلایا ہم نے غم کو پھر سے تنہائی کے ساتھ میں مل کر ہنستے ہنستے باتوں میں الجھایا ہم نے نا ممکن تھا اس کو حاصل کرنا پھر بھی پوری شدت سے یہ عشق نبھایا ہم نے اس ...

    مزید پڑھیے

    یوں بے دم ہیں سانسیں گھٹن کچھ نہیں ہے

    یوں بے دم ہیں سانسیں گھٹن کچھ نہیں ہے کسی درد کی اب چبھن کچھ نہیں ہے کھلونے ہیں مٹی کے ہم سب یہاں پر حقیقت یہی ہے بدن کچھ نہیں ہے یہ مانا کہ پیکر بہت کچھ ہے لیکن بنا روح یہ پیرہن کچھ نہیں ہے لگی آگ خوابوں میں اتنی کہ سمجھو یہ آنکھوں کی میرے جلن کچھ نہیں ہے میں خود مستقل ہوں سفر ...

    مزید پڑھیے

    مجھ میں ہے کچھ درد بچا سو زندہ ہوں

    مجھ میں ہے کچھ درد بچا سو زندہ ہوں چارہ گر نے بول دیا سو زندہ ہوں میں بس مرنے ہی والا تھا پھر اس نے ہونٹوں پر اک لمس رکھا سو زندہ ہوں مجھ کو ایک فقیر نے سکے کے بدلے دی ہوگی بھرپور دعا سو زندہ ہوں سوچا تھا اب موت سی نیند میں سوؤں گا خواب میں کچھ نایاب دکھا سو زندہ ہوں جینا وہ بھی ...

    مزید پڑھیے

    تجھ کو معلوم نہیں کیا ہے تری یادوں سے

    تجھ کو معلوم نہیں کیا ہے تری یادوں سے ایک انجان سا رشتہ ہے تری یادوں سے رات بے چین سی سردی میں ٹھٹھرتی ہے بہت دن بھی ہر روز سلگتا ہے تری یادوں سے ہجر کے غم نے مجھے مار دیا تھا تو کیا مر کے جینا بھی تو سیکھا ہے تری یادوں سے آج پھر سے جو ہوا قید تو یہ سوچوں ہوں کل ہی سوچا تھا کہ بچنا ...

    مزید پڑھیے

    سچ کہنے کا آخر یہ انجام ہوا

    سچ کہنے کا آخر یہ انجام ہوا ساری بستی میں میں ہی بدنام ہوا قتل کا مجرم رشوت دے کر چھوٹ گیا قسمت دیکھو میرے سر الزام ہوا میرے غم پر وہ اکثر ہنس دیتا ہے یہ تو غم کا غیر مناسب دام ہوا زخم یہاں تو ویسے کا ویسا ہی ہے تم بتلاؤ تم کو کچھ آرام ہوا تنہائی نے جب سے قید کیا مجھ کو باہر آنے ...

    مزید پڑھیے

    میں کیول اب خود سے رشتہ رکھوں گا

    میں کیول اب خود سے رشتہ رکھوں گا یعنی میں اب خود کو تنہا رکھوں گا دنیا سے ہر راز چھپانے کے خاطر میں اپنا چہرہ انجانا رکھوں گا منڈی میں غم کا میں ہی سوداگر ہوں اس خاطر میں دام زیادہ رکھوں گا تیری صورت تیری چاہت یادیں سب چھوٹے سے اس دل میں کیا کیا رکھوں گا وعدہ ہے تجھ سے میں تیری ...

    مزید پڑھیے

    اپنی آنکھوں کو کبھی ٹھیک سے دھویا ہی نہیں

    اپنی آنکھوں کو کبھی ٹھیک سے دھویا ہی نہیں سچ کہوں آج تلک کھل کے میں رویا ہی نہیں میرے لفظوں سے مرا درد جھلک جاتا ہے جبکہ اس درد کو آواز میں بویا ہی نہیں اک دفعہ نیند میں خوابوں کا جنازہ دیکھا بعد اس کے میں کبھی چین سے سویا ہی نہیں تنگ گلیوں میں محبت کی بھٹکتے ہیں سب میں نے کوشش ...

    مزید پڑھیے

    تیری تصویروں کو دیکھ پگھلتی ہیں

    تیری تصویروں کو دیکھ پگھلتی ہیں اب یہ آنکھیں ہم سے نہیں سنبھلتی ہیں ہر دن چہرہ الگ طرح کا ہوتا ہے غم کی شکلیں بھی تو روز بدلتی ہیں ان خوابوں کا سچ ہونا کیا ممکن ہے جن کے خاطر آنکھیں میری جلتی ہیں جانے کس کا لہجہ اس پر حاوی ہے اس کی باتیں اب انگار اگلتی ہیں دل کے قبرستان کا ...

    مزید پڑھیے

    ماضی کے جب زخم ابھرنے لگتے ہیں

    ماضی کے جب زخم ابھرنے لگتے ہیں آنکھوں سے جذبات بکھرنے لگتے ہیں ذہن و دل میں اس کی یادیں آتے ہی لفظ شرارت خود ہی کرنے لگتے ہیں کر کے یاد ترے ماتھے کا بوسہ ہم انگلی اب ہونٹھوں پہ دھرنے لگتے ہیں تیری میں تصویر کبھی جو دیکھوں تو میرے دن اور رات ٹھہرنے لگتے ہیں بن تیرے سانسوں کی ...

    مزید پڑھیے

    غرض پڑنے پہ اس سے مانگتا ہے

    غرض پڑنے پہ اس سے مانگتا ہے خدا ہوتا ہے یعنی مانتا ہے کئی دن سے شرارت ہی نہیں کی مرے اندر کا بچہ لاپتہ ہے برے ماحول سے گزرا ہے یہ دل محبت لفظ سے ہی کانپتا ہے یہ کچی عمر کے عاشق کو دیکھو ذرا روٹھے کلائی کاٹتا ہے ابھی منزل دکھائی بھی نہیں دی ابھی سے ہی تو اتنا ہانپتا ہے گناہوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3