اس مٹی کو ایسے کھیل کھلایا ہم نے

اس مٹی کو ایسے کھیل کھلایا ہم نے
خود کو روز بگاڑا روز بنایا ہم نے


جو سوچا تھا وہ تو ہم سے بنا نہیں پھر
جو بن پایا اس سے جی بہلایا ہم نے


غم کو پھر سے تنہائی کے ساتھ میں مل کر
ہنستے ہنستے باتوں میں الجھایا ہم نے


نا ممکن تھا اس کو حاصل کرنا پھر بھی
پوری شدت سے یہ عشق نبھایا ہم نے


اس کی یادیں بوجھ نہ بن جائیں سانسوں پر
سو یادوں سے اپنا دل دھڑکایا ہم نے


کہہ دیتے تو شاید اچھے ہو جاتے پر
خاموشی سے اپنا مرض بڑھایا ہم نے


اس کا چہرہ دیکھ لیا تھا ایک دفعہ پھر
ان آنکھوں سے سالوں قرض چکایا ہم نے