Ambarin Salahuddin

عنبرین صلاح الدین

نئی نسل کی اہم شاعرہ، اپنی نظموں کے لیے معروف

An important poet of the younger generation, known for her Nazms

عنبرین صلاح الدین کی غزل

    چاند ابھرے گا تو پھر حشر دکھائی دے گا

    چاند ابھرے گا تو پھر حشر دکھائی دے گا شب کی پہنائی میں ہر عکس دہائی دے گا میرے چہرے پہ کسی اور کی آنکھیں ہوں گی پھر کہاں کس کو کسی اور سجھائی دے گا آپ نے آنکھ میں جو خواب سجا رکھے ہیں ان کو تعبیر مرا دست حنائی دے گا میری حیرت مری وحشت کا پتہ پوچھتی ہے دیکھیے کون کسے پہلے رسائی دے ...

    مزید پڑھیے

    جب اشکوں میں صدائیں ڈھل رہی تھیں

    جب اشکوں میں صدائیں ڈھل رہی تھیں سر مژگاں دعائیں جل رہی تھیں لہو میں زہر گھلتا جا رہا تھا مرے اندر بلائیں پل رہی تھیں مقید حبس میں اک مصلحت کے امیدوں کی ردائیں گل رہی تھیں پروں میں یاسیت جمنے لگی تھی بہت مدت ہوائیں شل رہی تھیں وہاں اس آنکھ نے بدلے تھے تیور یہاں ساری دشائیں جل ...

    مزید پڑھیے

    بھنور میں پیر تھے اور آنکھ اک ستارے پر

    بھنور میں پیر تھے اور آنکھ اک ستارے پر الجھ رہی تھی نظر دوسرے کنارے پر تکان اوڑھ تو لیں ہم نئی مسافت کی تراش دیں نہ ہوائیں کہیں ہمارے پر نہ جانے سحر تھا کیسا کسی کی آنکھوں میں ہم اپنے گھر سے نکل آئے اک اشارے پر زمیں پہ پھر کوئی جائے امان مل نہ سکی مجھے کسی نے بلایا تھا اک ستارے ...

    مزید پڑھیے

    اس کے دھیان کی دل میں پیاس جگا لی جائے

    اس کے دھیان کی دل میں پیاس جگا لی جائے ایک بھی شام نہ پھر اس کے نام سے خالی جائے آنکھوں میں کاجل کی پرت جما لی جائے سکھیوں سے یوں پریت کی جوت چھپا لی جائے ریت ہے سورج ہے وسعت ہے تنہائی لیکن ناں اس دل کی خام خیالی جائے آنکھوں میں بھر کر اس دشت کی حیرانی وحشت کی عمدہ تصویر بنا لی ...

    مزید پڑھیے

    بہت بے زار ہوتی جا رہی ہوں

    بہت بے زار ہوتی جا رہی ہوں میں خود پر بار ہوتی جا رہی ہوں تمہیں اقرار کے رستے پہ لا کر میں خود انکار ہوتی جا رہی ہوں کہیں میں ہوں سراپا رہ گزر اور کہیں دیوار ہوتی جا رہی ہوں بہت مدت سے اپنی کھوج میں تھی سو اب اظہار ہوتی جا رہی ہوں بھنور دل کی تہوں میں بن رہے ہیں میں بے پتوار ...

    مزید پڑھیے

    ہم ستاروں میں ترا عکس نا ڈھلنے دیں گے

    ہم ستاروں میں ترا عکس نا ڈھلنے دیں گے چاند کو شام کی دہلیز پہ جلنے دیں گے آج چھو لیں گے کوئی عرش مرے وہم و گماں خواب کو نیند کی آنکھوں میں مچلنے دیں گے ہم بھی دیکھیں گے کہاں تک ہے رسائی اپنی دل کو بہلائیں گے ہم اور نا سنبھلنے دیں گے شب کی آغوش میں پھیلیں نہ گماں کے سائے اب نگاہوں ...

    مزید پڑھیے

    مری آنکھوں میں منظر دھل رہا تھا

    مری آنکھوں میں منظر دھل رہا تھا سر مژگاں ستارا گھل رہا تھا بہت سے لفظ دستک دے رہے تھے سکوت شب میں رستہ کھل رہا تھا جو اگلا وقت کے آتش فشاں نے وہ لمحہ خاک میں پھر رل رہا تھا ہوا تھا قرمزی پانی جہاں سے وہاں کل شام تک اک پل رہا تھا تمہارے نام سے آگے کا رستہ اجل کی آہٹوں میں کھل رہا ...

    مزید پڑھیے

    جب مرے شہر کی ہر شام نے دیکھا اس کو

    جب مرے شہر کی ہر شام نے دیکھا اس کو کیوں نہ پھر میرے در و بام نے دیکھا اس کو حرف در حرف مرے دل میں اتر آیا ہے مجھ سے پہلے مرے الہام نے دیکھا اس کو میری آنکھوں نے تو اک بار ہی منظر دیکھا پھر ہر اک لمحۂ دشنام نے دیکھا اس کو دن ڈھلے خواب دریچے میں اتر آتا ہے جب بھی دیکھا ہے یہاں شام ...

    مزید پڑھیے

    کوئی احساس مکمل نہیں رہنے دیتا

    کوئی احساس مکمل نہیں رہنے دیتا درد کا ساتھ مسلسل نہیں رہنے دیتا ہوش کی سرد نگاہوں سے تکے جاتا ہے کون ہے جو مجھے پاگل نہیں رہنے دیتا وقت طوفان بلا خیز کے گرداب میں ہے سر پہ میرے مرا آنچل نہیں رہنے دیتا ہاتھ پھیلاؤں تو چھو لیتا ہے جھونکے کی طرح ایک پل بھی مجھے بے کل نہیں رہنے ...

    مزید پڑھیے

    کیوں امبر کی پہنائی میں چپ کی راہ ٹٹولیں

    کیوں امبر کی پہنائی میں چپ کی راہ ٹٹولیں اپنی ذات کی بنت ادھیڑیں سانس میں خاک سمو لیں دھول میں لپٹی اس خواہش کی ساری پرتیں کھولیں دھرتی جنگل صحرا پربت پاؤں بیچ پرو لیں اپنے خواب کے ہاتھوں میں تکلے کی نوک چبھو لیں کسی محل کے سناٹے میں ایک صدی تک سو لیں ایک صدا کے لمس میں وقت کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2