Ambarin Salahuddin

عنبرین صلاح الدین

نئی نسل کی اہم شاعرہ، اپنی نظموں کے لیے معروف

An important poet of the younger generation, known for her Nazms

عنبرین صلاح الدین کی نظم

    سر مژگاں

    رات اک خواب نے آنکھیں مرے اندر کھولیں اور بستر کی شکن کھینچ کے سیدھی کر دی پھر سرہانے سے اکٹھے کئے گزرے لمحے ایک تصویر بنا کر سر مژگاں رکھ دی آنکھ کھولوں گی تو یہ بوجھ گرے گا ایسے آنکھ کا گنبد سیماب پگھل جائے گا میرے سب خوابوں خیالوں کو نگل جائے گا اور اگر آنکھ نہ کھولی تو یہ گریہ ...

    مزید پڑھیے

    جہاں میں کھڑی تھی

    جہاں میں کھڑی تھی وہاں سے قدم، دو قدم ہی کا رستہ تھا جس جا پہ موسم بدلنے کو تیار بیٹھے تھے میرے یہ بس میں نہیں تھا کہ میں اپنی کھڑکی کے آگے پگھلتے ہوئے منظروں میں کوئی اپنی مرضی کا ہی رنگ بھر دوں خزاں کی اکڑتی ہوئی زرد بانہوں کو اپنے جھروکے کے آگے یہ بد رنگ پیلے مناظر سجانے سے ہی ...

    مزید پڑھیے

    وحشت

    مجھے وحشت کا مطلب کب پتہ تھا آج سے پہلے کبھی ایسا ہوا یہ دل ذرا گھبرا گیا تو کہہ دیا کہ دل بہت وحشت زدہ ہے اور ایسا بھی ہوا گر سخت لہجے میں کسی نے بات کی یا بات رد کر دی نہ کوئی کام ہو یا نہ نیند آئی تو پھر بھی کہہ دیا وحشت بہت ہے مجھے یہ لفظ اچھا ہی بہت لگتا تھا پر ایسے نہیں دیکھو کہ ...

    مزید پڑھیے

    جنگل

    ایک عجیب سا جنگل ہے اس شہر کے بیچ اگ آیا گھنا مہیب اور گہرا جس کی خوب گھنیری چھایا یوں لگتا ہے جیسے میرے بھیتر کا اک سایا اک دن پہلے کہیں نہیں تھا ایسا سبز اندھیرا اونچی شاخوں کی پرتوں کا گنبد جیسا گھیرا دیکھوں پھر حیران رہوں اس شہر میں ایسا ڈیرا کانٹوں والے زہر بھرے بل کھاتے ...

    مزید پڑھیے

    قرۃ العین حیدر

    میں نے دیکھی ہیں کسی چہرے میں ایسی آنکھیں جن میں میرے کئی ان جانے سوالوں کے جواب ایسی آسانی سے سچائی کے در کھولتے ہیں آسمانوں میں زمینوں کے صنم بولتے ہیں میں نے جانا ہے کہ لفظوں کے طلسمی دھاگے کیسے تاریخ کو عنوان نئے دیتے ہیں کیسے آ ملتے ہیں صدیوں کی جدائی کے اسیر کس طرح خواب ...

    مزید پڑھیے

    کھڑکی

    میری جیسی نظمیں لکھنے والی لڑکی جس کھڑکی کی اوٹ سے مجھ کو دیکھ رہی ہے اس کے دھندلے شیشوں پر سب عکس ہیں میری آنکھوں سے بہتے پانی کے اور نقش ہیں اس کی چوکھٹ پر ان ہاتھوں کے اس کھڑکی کی آنکھوں سے دیکھا ہے میں نے اچھا اور برا لمحہ اور اندر اور باہر کے سب موسم وہیں سے گزرے ہیں اس کھڑکی ...

    مزید پڑھیے

    دسترس

    ابھرتی ہے مرے ماتھے کی سلوٹ میں شکن دھاگے کے کھنچنے کی ادھیڑے جا رہی ہوں میں بھی دن بھر سے مجھے جب یاد آتا ہے کہ میں کتنا الجھتی تھی مری نانی ہر اک کپڑے کو چاہے وہ نیا ہی کیوں نہ ہو اک بار کم سے کم نہ جب تک اپنے ہاتھوں سے ادھیڑیں اور سی لیں تب تلک ان کو سکوں آتا نہ تھا میں اکثر سوچتی ...

    مزید پڑھیے

    ایک کہانی

    میرے کمرے میں پھیلی ہے ایک کہانی ابھی ذرا سی دیر ہوئی ہے میں نے اک میلے کاغذ پر حرفوں کے ٹکڑے جوڑے تھے اور کہانی کو تھوڑی سی جگہ ملی تھی پھر لفظوں کے تانے بانے بکھر گئے تھے جن لفظوں سے آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے بیت گیا ہے اتنا وقت کہ اب تو یاد بھی کب آتا ہے اپنے جسم کی قید میں ہیں ہم ...

    مزید پڑھیے

    انتساب

    شکایت نہ کرنا اگر یہ زمانہ پکارے تمہیں اور صدا میری آواز کی گونج ہو شکایت نہ کرنا اگر لوگ مڑ مڑ کے دیکھیں تمہیں اور ہر شکل میں میری مسکان تم کو دکھائی بھی دے اور سنائی بھی دے شکایت نہ کرنا اگر ہر زباں پر تمہارے بجائے مرا نام ہو تمہیں میری آنکھوں کی تعریف کرتے ہوئے سوچنا چاہئے ...

    مزید پڑھیے