Ambarin Salahuddin

عنبرین صلاح الدین

نئی نسل کی اہم شاعرہ، اپنی نظموں کے لیے معروف

An important poet of the younger generation, known for her Nazms

عنبرین صلاح الدین کے تمام مواد

13 غزل (Ghazal)

    چاند ابھرے گا تو پھر حشر دکھائی دے گا

    چاند ابھرے گا تو پھر حشر دکھائی دے گا شب کی پہنائی میں ہر عکس دہائی دے گا میرے چہرے پہ کسی اور کی آنکھیں ہوں گی پھر کہاں کس کو کسی اور سجھائی دے گا آپ نے آنکھ میں جو خواب سجا رکھے ہیں ان کو تعبیر مرا دست حنائی دے گا میری حیرت مری وحشت کا پتہ پوچھتی ہے دیکھیے کون کسے پہلے رسائی دے ...

    مزید پڑھیے

    جب اشکوں میں صدائیں ڈھل رہی تھیں

    جب اشکوں میں صدائیں ڈھل رہی تھیں سر مژگاں دعائیں جل رہی تھیں لہو میں زہر گھلتا جا رہا تھا مرے اندر بلائیں پل رہی تھیں مقید حبس میں اک مصلحت کے امیدوں کی ردائیں گل رہی تھیں پروں میں یاسیت جمنے لگی تھی بہت مدت ہوائیں شل رہی تھیں وہاں اس آنکھ نے بدلے تھے تیور یہاں ساری دشائیں جل ...

    مزید پڑھیے

    بھنور میں پیر تھے اور آنکھ اک ستارے پر

    بھنور میں پیر تھے اور آنکھ اک ستارے پر الجھ رہی تھی نظر دوسرے کنارے پر تکان اوڑھ تو لیں ہم نئی مسافت کی تراش دیں نہ ہوائیں کہیں ہمارے پر نہ جانے سحر تھا کیسا کسی کی آنکھوں میں ہم اپنے گھر سے نکل آئے اک اشارے پر زمیں پہ پھر کوئی جائے امان مل نہ سکی مجھے کسی نے بلایا تھا اک ستارے ...

    مزید پڑھیے

    اس کے دھیان کی دل میں پیاس جگا لی جائے

    اس کے دھیان کی دل میں پیاس جگا لی جائے ایک بھی شام نہ پھر اس کے نام سے خالی جائے آنکھوں میں کاجل کی پرت جما لی جائے سکھیوں سے یوں پریت کی جوت چھپا لی جائے ریت ہے سورج ہے وسعت ہے تنہائی لیکن ناں اس دل کی خام خیالی جائے آنکھوں میں بھر کر اس دشت کی حیرانی وحشت کی عمدہ تصویر بنا لی ...

    مزید پڑھیے

    بہت بے زار ہوتی جا رہی ہوں

    بہت بے زار ہوتی جا رہی ہوں میں خود پر بار ہوتی جا رہی ہوں تمہیں اقرار کے رستے پہ لا کر میں خود انکار ہوتی جا رہی ہوں کہیں میں ہوں سراپا رہ گزر اور کہیں دیوار ہوتی جا رہی ہوں بہت مدت سے اپنی کھوج میں تھی سو اب اظہار ہوتی جا رہی ہوں بھنور دل کی تہوں میں بن رہے ہیں میں بے پتوار ...

    مزید پڑھیے

تمام

9 نظم (Nazm)

    سر مژگاں

    رات اک خواب نے آنکھیں مرے اندر کھولیں اور بستر کی شکن کھینچ کے سیدھی کر دی پھر سرہانے سے اکٹھے کئے گزرے لمحے ایک تصویر بنا کر سر مژگاں رکھ دی آنکھ کھولوں گی تو یہ بوجھ گرے گا ایسے آنکھ کا گنبد سیماب پگھل جائے گا میرے سب خوابوں خیالوں کو نگل جائے گا اور اگر آنکھ نہ کھولی تو یہ گریہ ...

    مزید پڑھیے

    جہاں میں کھڑی تھی

    جہاں میں کھڑی تھی وہاں سے قدم، دو قدم ہی کا رستہ تھا جس جا پہ موسم بدلنے کو تیار بیٹھے تھے میرے یہ بس میں نہیں تھا کہ میں اپنی کھڑکی کے آگے پگھلتے ہوئے منظروں میں کوئی اپنی مرضی کا ہی رنگ بھر دوں خزاں کی اکڑتی ہوئی زرد بانہوں کو اپنے جھروکے کے آگے یہ بد رنگ پیلے مناظر سجانے سے ہی ...

    مزید پڑھیے

    وحشت

    مجھے وحشت کا مطلب کب پتہ تھا آج سے پہلے کبھی ایسا ہوا یہ دل ذرا گھبرا گیا تو کہہ دیا کہ دل بہت وحشت زدہ ہے اور ایسا بھی ہوا گر سخت لہجے میں کسی نے بات کی یا بات رد کر دی نہ کوئی کام ہو یا نہ نیند آئی تو پھر بھی کہہ دیا وحشت بہت ہے مجھے یہ لفظ اچھا ہی بہت لگتا تھا پر ایسے نہیں دیکھو کہ ...

    مزید پڑھیے

    جنگل

    ایک عجیب سا جنگل ہے اس شہر کے بیچ اگ آیا گھنا مہیب اور گہرا جس کی خوب گھنیری چھایا یوں لگتا ہے جیسے میرے بھیتر کا اک سایا اک دن پہلے کہیں نہیں تھا ایسا سبز اندھیرا اونچی شاخوں کی پرتوں کا گنبد جیسا گھیرا دیکھوں پھر حیران رہوں اس شہر میں ایسا ڈیرا کانٹوں والے زہر بھرے بل کھاتے ...

    مزید پڑھیے

    قرۃ العین حیدر

    میں نے دیکھی ہیں کسی چہرے میں ایسی آنکھیں جن میں میرے کئی ان جانے سوالوں کے جواب ایسی آسانی سے سچائی کے در کھولتے ہیں آسمانوں میں زمینوں کے صنم بولتے ہیں میں نے جانا ہے کہ لفظوں کے طلسمی دھاگے کیسے تاریخ کو عنوان نئے دیتے ہیں کیسے آ ملتے ہیں صدیوں کی جدائی کے اسیر کس طرح خواب ...

    مزید پڑھیے

تمام