Amanullah Khalid

امان اللہ خالد

روایت اور سماجی حقیقیت کے احساس کے ساتھ شاعری کرنے والوں میں شامل

A poet of social realities, showed respect with tradition

امان اللہ خالد کے تمام مواد

8 غزل (Ghazal)

    سائیں اپنے نفس کو ہم نے یوں ہی نہیں ناکام کیا

    سائیں اپنے نفس کو ہم نے یوں ہی نہیں ناکام کیا عمر گزاری در بدری میں کب کس جا آرام کیا غیر تو آخر غیر ہیں یارو کیا سوچیں اب کس کے تئیں ہم نے کون جگہ اپنے کو پابند احکام کیا اہل خرد نے جشن بہاراں یوں بھی منایا اب کے برس جیب و گریباں چاک کیے اور دیوانوں میں نام کیا ہر در پہ اک بانگ ...

    مزید پڑھیے

    زمیں جیسے کی آتش فشاں کو ساتھ لیے

    زمیں جیسے کی آتش فشاں کو ساتھ لیے یوں جی رہا ہوں میں درد نہاں کو ساتھ لیے ہوا شکار سیاست کا اب کے موسم بھی بہار آئی ہے لیکن خزاں کو ساتھ لیے رکو تو یوں کہ ٹھہر جائے گردش دوراں چلو تو ایسے کہ سارے جہاں کو ساتھ لیے نفس نفس ہیں اجالے ہزار کرب لیے ہر ایک رات ہے اک داستاں کو ساتھ ...

    مزید پڑھیے

    گھر اپنا وادی برق و شرر میں رکھا جائے

    گھر اپنا وادی برق و شرر میں رکھا جائے تعلقات کا سودا نہ سر میں رکھا جائے اگر طلب ہو کبھی چند گھونٹ پانی کی سمندروں کا تصور نظر میں رکھا جائے سنا ہے دختر تہذیب گھر سے بھاگ گئی چھپا کے بچوں کو ہرگز نہ گھر میں رکھا جائے پتہ نہیں کہ کہاں رہ زنوں کی ہو یلغار کوئی دفاع بھی رخت سفر میں ...

    مزید پڑھیے

    راہ ہستی کے ہر اک موڑ سے بچ کر نکلے

    راہ ہستی کے ہر اک موڑ سے بچ کر نکلے اہل دانش سے تو دیوانے ہی بہتر نکلے وقت کی تیز ہواؤں نے عجب موڑ لیا پھول سے ہاتھ جو تھے ان میں بھی پتھر نکلے تیری یادوں کے سہارے جو گزارے ہم نے وہ ہی لمحات فقط اپنا مقدر نکلے ہم نے غیروں کے بھی اشکوں کو لیا دامن پر چاہے خود غم کے سمندر میں نہا کر ...

    مزید پڑھیے

    ہے مری زیست ترے غم سے فروزاں جاناں

    ہے مری زیست ترے غم سے فروزاں جاناں کون کہتا ہے مجھے بے سر و ساماں جاناں تیری یادیں مرے ہم راہ بہ ہر گام ہیں جب میں نے سمجھا ہی نہیں خود کو پریشاں جاناں نبض احساس بہت سست ہوئی جاتی ہے دل کو درکار ہے پھر درد کا پیکاں جاناں ہنستے ہنستے نظر آتے تھے جہاں غنچہ و گل ویراں ویراں سا لگے ...

    مزید پڑھیے

تمام

2 نظم (Nazm)

    علم

    علم سے بڑھ کے کچھ بھی جہاں میں نہیں پھول ایسا کوئی گلستاں میں نہیں علم اللہ نے فرض ہم پر کیا علم سے ہم پہ راز حقیقت کھلا علم سے ہی ملی ہم کو راہ وفا علم ہے ابتدا علم ہے انتہا علم سے بڑھ کے کچھ بھی جہاں میں نہیں پھول ایسا کوئی گلستاں میں نہیں علم سے ہم کو راہ حقیقت ملی علم پر ہے ...

    مزید پڑھیے

    میں ایک سنگ میل ہوں

    میں ایک سنگ میل ہوں ہر مسافر میری جانب دیکھتا ہے لا شعوری طور پر اور اپنے ذہن میں رکھے ہوئے ہر قدم تسخیر منزل کا خیال بڑھتا جاتا ہے وہ اپنی راہ پر بے بسی کا میری عالم دیکھیے جامد و ساکت ہوں میں اپنی جگہ کیوں کہ میں ایک سنگ میل ہوں جانے کتنے لوگ گزرے اور گزریں گے اسی اک راہ سے ہر کسی ...

    مزید پڑھیے