Altamash Shams

التمش شمس

  • 1962

التمش شمس کی غزل

    ایک ہم سخاوت میں گھر کا گھر لٹا بیٹھے

    ایک ہم سخاوت میں گھر کا گھر لٹا بیٹھے ایک وہ خیانت سے اپنا گھر سجا بیٹھے روشنی کا ذمہ جو اپنے سر لیا ہم نے اور کچھ نہ سوجھا تو اپنا گھر جلا بیٹھے اپنے ہار جانے کا غم نہیں ذرا مجھ کو غم ہے میرے اپنے بھی دشمنوں میں جا بیٹھے کس قدر بھروسہ تھا ان کو ذات اقدس پر یوں ہی تھوڑی اپنی وہ ...

    مزید پڑھیے

    ستارے رقص کرتے ہیں نہ تارے رقص کرتے ہیں

    ستارے رقص کرتے ہیں نہ تارے رقص کرتے ہیں تری خاطر شب فرقت کے مارے رقص کرتے ہیں کبھی آ کر چلے جانا کبھی چھپنا کبھی ملنا مری آنکھوں میں اب تک وہ نظارے رقص کرتے ہیں نہ جانے مطربہ نے ساز پر دھن کیسی چھیڑی ہے شریک بزم جتنے ہیں وہ سارے رقص کرتے ہیں ذرا سی چھیڑ پر اے شمسؔ ان کی کیفیت ...

    مزید پڑھیے

    تا قیامت نہیں زوال ہمیں

    تا قیامت نہیں زوال ہمیں اس نے بخشا ہے وہ کمال ہمیں ہم کہ روشن کتاب والے ہیں پوچھئے کوئی بھی سوال ہمیں گردش وقت اپنے کل کی سوچ اس قدر کر نہ پائمال ہمیں ہم ترے عہد کی امانت ہیں اپنے سینے میں رکھ سنبھال ہمیں ایک بے رنگ کتاب کی صورت میز پر یوں نہ تو اچھال ہمیں چاند تاروں نے آسماں ...

    مزید پڑھیے

    چلو ہم میں وفاداری نہیں ہے

    چلو ہم میں وفاداری نہیں ہے مگر کیا تم میں غداری نہیں ہے تمہارا جھک کے ملنا ہر کسی سے بتاؤ کیا اداکاری نہیں ہے کوئی منصف مجھے کیونکر ملے گا مرا انداز درباری نہیں ہے بڑا ہی نیک ہے وہ پارسا بھی فقط اس میں ملن ساری نہیں ہے حقارت سے زمانہ دیکھتا ہے وجہ یہ ہے کہ سرداری نہیں ہے کھلے ...

    مزید پڑھیے