ایک ہم سخاوت میں گھر کا گھر لٹا بیٹھے
ایک ہم سخاوت میں گھر کا گھر لٹا بیٹھے
ایک وہ خیانت سے اپنا گھر سجا بیٹھے
روشنی کا ذمہ جو اپنے سر لیا ہم نے
اور کچھ نہ سوجھا تو اپنا گھر جلا بیٹھے
اپنے ہار جانے کا غم نہیں ذرا مجھ کو
غم ہے میرے اپنے بھی دشمنوں میں جا بیٹھے
کس قدر بھروسہ تھا ان کو ذات اقدس پر
یوں ہی تھوڑی اپنی وہ کشتیاں جلا بیٹھے
کل جو ہنس کے ملتے تھے منہ چھپائے پھرتے ہیں
شمسؔ آپ کیوں ان کو آئینہ دکھا بیٹھے