لطف آنے لگا بکھرنے میں
لطف آنے لگا بکھرنے میں
ایک غم کو ہزار کرنے میں
بس ذرا سا پھسل گئے تھے ہم
اک بگولے پہ پاؤں دھرنے میں
کتنی آنکھوں سے بھر گئی آنکھیں
تیرے خوابوں سے پھر گزرنے میں
میں نے سوچا مدد کرو گے تم
کم نصیبی کے گھاؤ بھرنے میں
بجھتے جاتے ہیں میرے لوگ یہاں
روشنی کو بحال کرنے میں
کس قدر ہاتھ ہو گیا زخمی
خود کشی تیرے پر کترنے میں