جنوں کا رقص بھی کب تک کروں گا
جنوں کا رقص بھی کب تک کروں گا
کہیں میں بھی ٹھکانے جا لگوں گا
ہوا جاتا ہے تن یہ بوجھ مجھ پر
مگر یہ دکھ بھی اب کس سے کہوں گا
بھلا دوں کیوں نہ میں اس چپ کو آخر
ذرا سے زخم کو کتنا کروں گا
خدا کے رنگ بھی سب کھل گئے ہیں
گناہ اپنے بھی میں کیونکر گنوں گا
تری خاموشیوں کی دھوپ میں بھی
تری آواز میں بھیگا رہوں گا
ابھی بے بات کتنا ہنس رہا ہوں
نکل کر بزم سے گریہ کروں گا
نہیں وعدہ نہیں ہوگا کوئی اب
بہت ہوگا تو بس زندہ رہوں گا