Aleena Itrat

علینا عترت

مشاعروں میں مقبول نسائی لب و لہجے کی معروف شاعرہ

A woman poet of female tone and tenor, popular in Mushairas.

علینا عترت کی غزل

    موسم گل پر خزاں کا زور چل جاتا ہے کیوں

    موسم گل پر خزاں کا زور چل جاتا ہے کیوں ہر حسیں منظر بہت جلدی بدل جاتا ہے کیوں یوں اندھیرے میں دکھا کر روشنی کی اک جھلک میری مٹھی سے ہر اک جگنو نکل جاتا ہے کیوں روشنی کا اک مسافر تھک کے گھر آتا ہے جب تو اندھیرا میرے سورج کو نگل جاتا ہے کیوں تیرے لفظوں کی تپش سے کیوں سلگ اٹھتی ہے ...

    مزید پڑھیے

    سارے موسم بدل گئے شاید

    سارے موسم بدل گئے شاید اور ہم بھی سنبھل گئے شاید جھیل کو کر کے ماہتاب سپرد عکس پا کر بہل گئے شاید ایک ٹھہراؤ آ گیا کیسا زاویے ہی بدل گئے شاید اپنی لو میں تپا کے ہم خود کو موم بن کر پگھل گئے شاید کانپتی لو قرار پانے لگی جھونکے آ کر نکل گئے شاید ہم ہوا سے بچا رہے تھے جنہیں ان ...

    مزید پڑھیے

    دور تک پھیل گئی سب کی زباں تک پہنچی

    دور تک پھیل گئی سب کی زباں تک پہنچی بات تب جا کے مرے وہم و گماں تک پہنچی پیاس نے مجھ کو تو بس مار ہی ڈالا تھا مگر کشش زیست مری آب رواں تک پہنچی خاک جب خاک سے ٹکرائی تو اک شور اٹھا جان جب جان سے گزری تو اماں تک پہنچی دھڑکنو میں تری آمد سے وہ جھنکار ہوئی لب کھلے بھی نہیں اور بات ...

    مزید پڑھیے

    بگولہ بن کے ناچتا ہوا یہ تن گزر گیا

    بگولہ بن کے ناچتا ہوا یہ تن گزر گیا ہوا میں دیر تک اڑا غبار اور بکھر گیا ہماری مٹی جانے کون ذرہ ذرہ کر گیا بغیر شکل یہ وجود چاک پر بکھر گیا یہ روح حسرت وجود کی بقا کا نام ہے بدن نہ ہو سکا جو خواب روح میں ٹھہر گیا عجب سی کشمکش تمام عمر ساتھ ساتھ تھی رکھا جو روح کا بھرم تو جسم میرا ...

    مزید پڑھیے

    بھگو گئی گل احساس آج شبنم پھر

    بھگو گئی گل احساس آج شبنم پھر بدن کے گرد لپٹنے لگا ہے ریشم پھر یہ کس خیال کے کندن سے سج گیا تن من بھرے ہیں کاسۂ ہستی میں کس نے نیلم پھر بہار بوندیں گھٹا خوش گوار پروائی مرے سنگار کے کیا آ گئے ہیں موسم پھر بتا رہی ہیں یہ سرگوشیاں سمندر کی کہ خشک ریت سے دریا کا ہوگا سنگم پھر کئی ...

    مزید پڑھیے

    رات کے پچھلے پہر جس نے جگایا کیا تھا

    رات کے پچھلے پہر جس نے جگایا کیا تھا کوئی آسیب زدہ ہجر کا سایہ کیا تھا نہ تو ہم سمجھے نہ کی کوئی وضاحت دل نے جانے اپنا تھا کہ وہ شخص پرایا کیا تھا یہ تو سچ ہے کہ لبوں نے نہ کوئی جنبش کی پر نگاہوں نے جو پیغام سنایا کیا تھا یوں سمندر کا ہوا سے تو کوئی ربط نہ تھا لہر نے پھر بھی جو یہ ...

    مزید پڑھیے

    اجنبی سا اک ستارہ ہوں میں سیاروں کے بیچ

    اجنبی سا اک ستارہ ہوں میں سیاروں کے بیچ اک جدا کردار ہوں اپنے ہی کرداروں کے بیچ پھر رہی ہوں بے سبب پاگل ہوا سی جا بجا دھند میں لپٹے ہوئے خاموش کہساروں کے بیچ اس حصار خاک کو جب توڑ کر نکلوں گی میں ڈھونڈتے رہ جاؤگے تم مجھ کو دیواروں کے بیچ کچھ کڑے ٹکراؤ دے جاتی ہے اکثر روشنی جوں ...

    مزید پڑھیے

    شام کے وقت چراغوں سی جلائی ہوئی میں

    شام کے وقت چراغوں سی جلائی ہوئی میں گھپ اندھیروں کی منڈیروں پہ سجائی ہوئی میں دیکھنے والوں کی نظروں کو لگوں سادہ ورق تیری تحریر میں ہوں ایسے چھپائی ہوئی میں خاک کر کے مجھے صحرا میں اڑانے والے دیکھ رقصاں ہوں سر دشت اڑائی ہوئی میں کیا اندھیروں کی حفاظت کے لئے رکھی ہوں اپنی ...

    مزید پڑھیے

    لیجئے ہم سے با کمال لوگ بھی عام ہو گئے

    لیجئے ہم سے با کمال لوگ بھی عام ہو گئے جن سے گریز تھا ہمیں ہم سے وہ کام ہو گئے آپ کی بد دعائے دل آخر اثر دکھا گئی ہم کو بھی عشق ہو گیا ہم بھی غلام ہو گئے چادر احتیاط آج سر سے ہوا جو لے اڑی زلف کے سارے پیچ و خم منظر عام ہو گئے باغ بدن میں ہر طرف کلیاں چٹک چٹک گئیں باد صبا چلی تو ہم ...

    مزید پڑھیے

    جیت کی اور نہ ہار کی ضد ہے

    جیت کی اور نہ ہار کی ضد ہے دل کو شاید قرار کی ضد ہے کوئی بھی تو نہیں تعاقب میں جانے کس سے فرار کی ضد ہے ہم سے کچھ کہہ رہے ہیں سناٹے پر ہمیں انتظار کی ضد ہے عشق چاہے کہ لب کو جام لکھے حسن کو انکسار کی ضد ہے بارہا ہم نے سنگسار کیا پر اسے اعتبار کی ضد ہے ایک انجام طے شدہ کے لیے پھر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3