رات کے پچھلے پہر جس نے جگایا کیا تھا
رات کے پچھلے پہر جس نے جگایا کیا تھا
کوئی آسیب زدہ ہجر کا سایہ کیا تھا
نہ تو ہم سمجھے نہ کی کوئی وضاحت دل نے
جانے اپنا تھا کہ وہ شخص پرایا کیا تھا
یہ تو سچ ہے کہ لبوں نے نہ کوئی جنبش کی
پر نگاہوں نے جو پیغام سنایا کیا تھا
یوں سمندر کا ہوا سے تو کوئی ربط نہ تھا
لہر نے پھر بھی جو یہ شور مچایا کیا تھا
وہ جو احساس تعلق تھا تعلق کے بغیر
اس نے سمجھا نہ کبھی ہم نے جتایا کیا تھا