علمدار عدم کے تمام مواد

13 غزل (Ghazal)

    زمیں سے آسماں تک کا سفر ہے

    زمیں سے آسماں تک کا سفر ہے یقیں جیسا گماں تک کا سفر ہے ہمیں تو رات دن چلنا ہے لیکن خدا جانے کہاں تک کا سفر ہے مرے اس کے تعلق کی کہانی جنوں کے درمیاں تک کا سفر ہے ترے انکار کا سارا خلاصہ تری ہلکی سی ہاں تک کا سفر ہے کتاب عشق کی ہر داستاں میں ہر اک قصہ زیاں تک کا سفر ہے

    مزید پڑھیے

    ہمیں پتا بھی نہیں کس کی وہ کہانی تھی

    ہمیں پتا بھی نہیں کس کی وہ کہانی تھی وہ اس قدر تھی نئی کہ بہت پرانی تھی کبھی جو دیکھ لیا اس کو دیکھتے ہی رہے وہ اپنے آپ میں ٹھہری ہوئی روانی تھی تمہاری یاد کا رکھا ہے کینوس ورنہ ہمارے خواب نے صورت نئی بنانی تھی تمہارے پاس تو قصے کہانیاں ہیں بہت کبھی جو ہم نے کہی بھی نہیں سنانی ...

    مزید پڑھیے

    ایک ایسا بھی مرحلہ ہوگا

    ایک ایسا بھی مرحلہ ہوگا اس نے سب کچھ مٹا دیا ہوگا یہ جو لڑتا ہے رات دن مجھ سے کوئی مجھ میں بھی دوسرا ہوگا وہ جو سچی تھی وہ کہانی تھی یہ جو قصہ ہے حادثہ ہوگا اس نے صدیوں کو باندھ رکھا ہے وہ جو کہتا تھا کل رہا ہوگا وہ جو ٹوٹا تھا نیند جیسا کچھ اس کا نقشہ بھی خواب سا ہوگا وہ جو ...

    مزید پڑھیے

    ایسے رستے پہ آ گیا ہوں میں

    ایسے رستے پہ آ گیا ہوں میں جیسے پتھر کوئی ہے یا ہوں میں اس نے پوچھا حیات کا قصہ کیا بتاؤں گا سوچتا ہوں میں وقت گھڑیوں کے درمیاں ہے کہیں سارے محور پہ گھومتا ہوں میں مجھ سے پوچھو نہ ماجرا دل کا ریزہ ریزہ جدا جدا ہوں میں مجھ سے کہتی ہے میری خاموشی شور کرتا ہوں چیختا ہوں میں اب تو ...

    مزید پڑھیے

    اسے بھی لوٹ کر آنا نہیں تھا

    اسے بھی لوٹ کر آنا نہیں تھا وہ جس کے سامنے رستہ نہیں تھا اسی کے خواب دیکھے جا رہے تھے جسے ہم نے کبھی دیکھا نہیں تھا ہمارا ظاہر و باطن مکمل کسی کے عشق میں ڈوبا نہیں تھا اسی امید پر زندہ تھے اب تک مسیحا لوٹ کر آیا نہیں تھا سروں کی بھیڑ تھی حد نظر تک مگر ان میں کوئی زندہ نہیں ...

    مزید پڑھیے

تمام