اسے بھی لوٹ کر آنا نہیں تھا
اسے بھی لوٹ کر آنا نہیں تھا
وہ جس کے سامنے رستہ نہیں تھا
اسی کے خواب دیکھے جا رہے تھے
جسے ہم نے کبھی دیکھا نہیں تھا
ہمارا ظاہر و باطن مکمل
کسی کے عشق میں ڈوبا نہیں تھا
اسی امید پر زندہ تھے اب تک
مسیحا لوٹ کر آیا نہیں تھا
سروں کی بھیڑ تھی حد نظر تک
مگر ان میں کوئی زندہ نہیں تھا
گھنے پیڑوں کی مجبوری تو دیکھو
کہیں بھی دور تک سایہ نہیں تھا