نہ انتشار کا خطرہ نہ انہدام کا ہے
نہ انتشار کا خطرہ نہ انہدام کا ہے
یہ مرحلہ تو تباہی کے اختتام کا ہے
جو ختم ہو گیا رشتہ وہ دوستی کا تھا
جو بچ گیا ہے تعلق وہ انتقام کا ہے
ہر ایک لمحہ عجب خوف بے پناہی کا
ہمارے عہد میں یہ رنگ صبح و شام کا ہے
بچائیں کس طرح بلوائیوں سے بستی کو
محافظوں کا ارادہ بھی قتل عام کا ہے
یہ بزدلی ہے کہ بوتے ہیں پھول ان کے لئے
وہ جن کے ہاتھ میں خنجر ہمارے نام کا ہے
سفر ہے دشت کا اور رات ہو گئی عالم
ہمارے سامنے اب مسئلہ قیام کا ہے