کھڑے ہیں دیر سے احباب دیکھنے کے لئے
کھڑے ہیں دیر سے احباب دیکھنے کے لئے
مرا سفینہ تہہ آب دیکھنے کے لئے
کھلی جو آنکھ تو ہم ڈوبتے نظر آئے
گئے تھے دور سے گرداب دیکھنے کے لئے
عبث پریشاں ہیں تعبیر کی تگ و دو میں
ملی ہے نیند ہمیں خواب دیکھنے کے لئے
ترس رہی ہے مرے دشت کی فضا کب سے
کسی درخت کو شاداب دیکھنے کے لئے
اڑان بھرنے لگے ہیں طیور و طیارے
قریب و دور سے سیلاب دیکھنے کے لئے
سنا ہے میں نے ہوائیں بھی بے قرار ہیں اب
مرے دئے کو ظفر یاب دیکھنے کے لئے
نظر جھکائے کھڑی ہیں عقیدتیں عالمؔ
شکست گنبد و محراب دیکھنے کے لئے