کل کی بات لگتی ہے
پیار کی کہانی بھی
مختصر جوانی بھی
وہ گھڑی سہانی بھی
وقت کی روانی بھی
کس کے ہات لگتی ہے
دشت بحر و بر امبر
پھول چشم تر گوہر
آئینہ ہو یا پتھر
فتنہ سازیٔ منظر
واردات لگتی ہے
طرف گل کھلے تھے جب
زخم ہی سلے تھے جب
غم کے سلسلے تھے جب
تم کو کچھ گلے تھے جب
سب کی مات لگتی ہے
اپنی بھول کچھ بھی ہو
اور اصول کچھ بھی ہو
عرض و طول کچھ بھی ہو
جب قبول کچھ بھی ہو
کائنات لگتی ہے
شوخیاں ارادوں کی
نیم جاں مرادوں کی
زیست کم سوادوں کی
بے شمار یادوں کی
اک برات لگتی ہے
بخت نارسائی دے
ہر کوئی دہائی دے
جب نہ کچھ دکھائی دے
کون رہنمائی دے
سخت رات لگتی ہے
جبر کی سیہ پوشی
اور قضا کی ہم دوشی
حسرت وفا کوشی
مصلحت کی خاموشی
بس نجات لگتی ہے
اف یہ دور بے چینی
الجھنیں مسائل کی
سوچ میں بغاوت بھی
جس سے شاعری میری
عکس ذات لگتی ہے
اے میری محیط جاں
کر چکے ہر اک مکاں
نذر شہر بے مہراں
اب تو راحت دوراں
بے ثبات لگتی ہے
جیسے خوابوں کی چلمن
وہ اجاڑ سا آنگن
یہ ہرا بھرا گلشن
سال ہو گئے پچپن
کل کی بات لگتی ہے