وہ جو اپنی ذات میں رکھتے ہیں عریانی کا شور

وہ جو اپنی ذات میں رکھتے ہیں عریانی کا شور
خلد سے آئے ہیں لے کے روح یزدانی کا شور


دشت میں رہتے ہیں پیاسے اور دریچے وا کئے
خوش ہوا کرتے ہیں سن کے دور سے پانی کا شور


ایک لڑکی چوڑیاں کھنکا رہی تھی اور تبھی
اس کھنک سے اٹھ رہا تھا جیسے زندانی کا شور


ہر کسی کا ایک لا ظاہر مقرب ہے مگر
دشمن دوران دنیا میں ہے برہانی کا شور


میرے گھر کے بام و در سب بن گئے ہیں قصہ گو
ہے محبت کی خموشی اور پشیمانی کا شور


ضبط غم کو طول دے جب زیست کی یکسانیت
موت کی آواز سے آتا ہے آسانی کا شور


میں پری پیکر ہوں لیکن بے زباں ہرگز نہیں
ساری دنیا نے سنا ہے ظرف نسوانی کا شور


وہ مجسم خوش بدن یوں تو سخنور ہے مگر
اس کے اندر گونجتا ہے رمز پنہانی کا شور


سب ستارے جھلملائے چاند کی آغوش میں
جب اندھیرے میں وہ لایا اپنی تابانی کا شور


اس نے پربت پر صدا دی جا کے مجھ کو عائشہؔ
اور وہاں سے لوٹ آیا میری ویرانی کا شور