خوشی میں یوں اضافہ کر لیا ہے

خوشی میں یوں اضافہ کر لیا ہے
بہت سا غم اکٹھا کر لیا ہے


ہمیں ہم سے بچانے کون آتا
سو اب خود سے کنارہ کر لیا ہے


مری تنہائی کا عالم تو دیکھو
زمانے بھر کو یکجا کر لیا ہے


تجھے جانے کی جلدی تھی سو خود سے
ترے حصے کا شکوہ کر لیا ہے


نہیں مانگیں گے تجھ کو اب دعا میں
خدا سے ہم نے جھگڑا کر لیا ہے


ترستے ہیں جسے ملنے کی خاطر
اسی کو اپنی دنیا کر لیا ہے


وہ کیا ہے عشق ہم نے اب کی جاناں
تکلف میں زیادہ کر لیا ہے


اندھیروں میں تو رکھتے ہی تھے خود کو
اجالوں میں بھی تنہا کر لیا ہے


کھلے پنجرے میں بھی جس کو ہے وحشت
یہ دل ایسا پرندہ کر لیا ہے