کچھ بات رہ گئی تھی بتانے کے باوجود
کچھ بات رہ گئی تھی بتانے کے باوجود
ہوں حالت سفر میں گھر آنے کے باوجود
دل سے اتر چکا تھا جو آ کر گلے ملا
دوری وہی تھی دل سے لگانے کے باوجود
ہاتھوں میں اب بھی اس کی ہے خوشبو بسی ہوئی
جو رہ گئی تھی ہاتھ چھڑانے کے باوجود
پرزے وہ خط کے آج بھی رکھے ہیں میرے پاس
جو بچ گئے تھے خط کو جلانے کے باوجود
نام اس کا میرے دل پہ چھپا اس طرح سے ہے
یوں نقش ہے ابھی بھی مٹانے کے باوجود
مجھ کو بھی یہ کمال ہنر ہے ملا ہوا
میں جی رہی ہوں اس کو بھلانے کے باوجود
کوئی بھی ہم شناس نہیں ہم نوا نہیں
رشتوں میں اک خلا ہے نبھانے کے باوجود
تیری صدائیں آئیں جو ماضی کی سمت سے
ہم رک گئے ہیں پاؤں بڑھانے کے باوجود
جو ضد میں بڑھ گئے تھے زمینوں کو روند کر
خوش کیوں نہیں ہیں آسماں پانے کے باوجود
یہ کیسا انتظار کہ ہوتا نہیں ہے ختم
تو آ گیا مگر ترے آنے کے باوجود