Ain Tabish

عین تابش

اہم معاصر شاعر، اپنی نظموں کے لیے معروف

Well-known contemporary poet

عین تابش کی غزل

    غبار جہاں میں چھپے باکمالوں کی صف دیکھتا ہوں

    غبار جہاں میں چھپے باکمالوں کی صف دیکھتا ہوں میں عہد گزشتہ کے آشفتگاں کی طرف دیکھتا ہوں میں سر کو چھپانے سے پہلے جہاں کا ہدف دیکھتا ہوں مہکتے ہوئے نیک پھولوں کو خنجر بکف دیکھتا ہوں ہے اندر تلک ایک نیزہ گلو میں کار وضو میں تو اس ہاؤ میں میں کہاں پر ہوں کس کی طرف دیکھتا ...

    مزید پڑھیے

    بزم خالی نہیں مہمان نکل آتے ہیں

    بزم خالی نہیں مہمان نکل آتے ہیں کچھ تو افسانے مری جان نکل آتے ہیں روز اک مرگ کا عالم بھی گزرتا ہے یہاں روز جینے کے بھی سامان نکل آتے ہیں سوچتا ہوں پر پرواز سمیٹوں لیکن کتنے بھولے ہوئے پیمان نکل آتے ہیں یاد کے سوئے ہوئے قافلے جاگ اٹھتے ہیں خواب کے کچھ نئے عنوان نکل آتے ...

    مزید پڑھیے

    کیسے افسوں تھے وہاں کیسے فسانے تھے ادھر

    کیسے افسوں تھے وہاں کیسے فسانے تھے ادھر زندگی تجھ سے تعلق کے بہانے تھے ادھر کیا عجب خواب کے خوشبو کے ٹھکانے تھے ادھر اب تو کچھ یاد نہیں کون زمانے تھے ادھر یہ نہیں یاد کہ وہ باغ تھا کس کوچے میں اس قدر یاد ہے کچھ پھول کھلانے تھے ادھر ایک بستی تھی ہوئی وقت کے اندوہ میں گم چاہنے ...

    مزید پڑھیے

    تابش یہ بھلا کون سی رت آئی ہے جانی

    تابش یہ بھلا کون سی رت آئی ہے جانی صحرا میں کوئی ریگ نہ دریا میں ہے پانی خلوت کدۂ دل پہ زبوں حالیٔ بسیار ہے صورت گنجینۂ الفاظ و معانی ہر چند ہوئی اس کے عوض دل کی خرابی کیا کہیے کہ بڑھتا رہا شوق ہمہ دانی مجھ سے مری روتی ہوئی آنکھیں تو نہ چھنیو رہنے دو مرے پاس مری کوئی ...

    مزید پڑھیے

    وہی جنوں کی سوختہ جانی وہی فسوں افسانوں کا

    وہی جنوں کی سوختہ جانی وہی فسوں افسانوں کا اڑا اڑا سا بجھا بجھا سا رنگ وہی دیوانوں کا دریا تو مانوس ہے اشک لہو کی خود سر موجوں سے دشت تجھے معلوم ہے سارا قصہ ان حیرانوں کا چاہت بھر امید رکھی ہے اور رستوں بھر پا مردی درویشوں کے چال چلن میں رنگ ہے سب سلطانوں کا ابھی نہیں تو آئندہ ...

    مزید پڑھیے

    ہزار مرحلے ہوں گے جنوں سے آگے بھی

    ہزار مرحلے ہوں گے جنوں سے آگے بھی بسے ہیں شہر کئی سیل خوں سے آگے بھی ہم ایک دن قفس جاں سے باہر آئے تو پہنچ گئے فلک نیلگوں سے آگے بھی بکھر رہی ہیں درون و بروں کی ساری حدیں لگائیں خیمہ درون و بروں سے آگے بھی ہمیں خبر ہوئی یہ شہر سونے والا ہے سو دیکھ آئے بدن کے فسوں سے آگے بھی کبھی ...

    مزید پڑھیے

    پیاس بڑھتی ہوئی تا حد نظر پانی تھا

    پیاس بڑھتی ہوئی تا حد نظر پانی تھا رو بہ رو کیسا عجب منظر حیرانی تھا راستہ بند تھا اور شوق سفر تھا باقی ایک افسانہ جنوں کا تھا جو طولانی تھا ایک خوشبو تھی جو ملبوس پہ تابندہ تھی ایک موسم تھا مرے سر پہ جو طوفانی تھا دم بخود ایک تماشائے فنا تھا ہر سو شور کرتا ہوا اک شوق جہاں بانی ...

    مزید پڑھیے

    میری تنہائی کے اعجاز میں شامل ہے وہی

    میری تنہائی کے اعجاز میں شامل ہے وہی رقص میں ہے دل دیوانہ کہ محفل ہے وہی یہ الگ بات نہ وہ تمکنت آرا ہے نہ میں ہے چمن بھی وہی اور شور عنادل ہے وہی وہی لیلائے سخن اب بھی سراپائے طلسم میری جاں اب بھی وہی ہے کہ مرا دل ہے وہی دشت حیرت میں وہی میرا جنوں محو خرام آ کے دیکھو کہ یہاں گرمی ...

    مزید پڑھیے

    آوارہ بھٹکتا رہا پیغام کسی کا

    آوارہ بھٹکتا رہا پیغام کسی کا مکتوب کسی اور کا تھا نام کسی کا ہے ایک ہی لمحہ جو کہیں وصل کہیں ہجر تکلیف کسی کے لیے آرام کسی کا کچھ لوگوں کو رخصت بھی کیا کرتی ہے ظالم رستہ بھی تکا کرتی ہے یہ شام کسی کا اک قہر ہوا کرتی ہے یہ محفل مے ہے بھی جب ہونٹ کسی اور کا ہو جام کسی کا مدت ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    جی رہے ہیں عافیت میں تو ہنر خوابوں کا ہے

    جی رہے ہیں عافیت میں تو ہنر خوابوں کا ہے اب بھی لگتا ہے کہ یہ سارا سفر خوابوں کا ہے جی لگا رکھا ہے یوں تعبیر کے اوہام سے زندگی کیا ہے میاں بس ایک گھر خوابوں کا ہے رات چلتی رہتی ہے اور جلتا رہتا ہے چراغ ایک بجھتا ہے تو پھر نقش دگر خوابوں کا ہے رنگ بازار خرد کا اور یہ میرا جنوں اک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2