ہزار مرحلے ہوں گے جنوں سے آگے بھی
ہزار مرحلے ہوں گے جنوں سے آگے بھی
بسے ہیں شہر کئی سیل خوں سے آگے بھی
ہم ایک دن قفس جاں سے باہر آئے تو
پہنچ گئے فلک نیلگوں سے آگے بھی
بکھر رہی ہیں درون و بروں کی ساری حدیں
لگائیں خیمہ درون و بروں سے آگے بھی
ہمیں خبر ہوئی یہ شہر سونے والا ہے
سو دیکھ آئے بدن کے فسوں سے آگے بھی
کبھی تو جھانک لے دیوار قہقہہ سے ادھر
کبھی تو دیکھ لے حد جنوں سے آگے بھی