Ain Tabish

عین تابش

اہم معاصر شاعر، اپنی نظموں کے لیے معروف

Well-known contemporary poet

عین تابش کی نظم

    پہلے تو شہر ایسا نہ تھا

    اک بار چل کر دیکھ لیں شاید گزشتہ موسموں کا کوئی اک دھندلا نشاں مل جائے اور پھر سے فضا شاداب ہو اجڑا ہوا اک خواب ہو تصویر میں کچھ گرد باد باقیات منبر و محراب ہو اک بار چل کر دیکھ لیں پھر بند ہوتے شہر کے بازار کو جھانکیں ذرا اجڑی دکانوں میں کلاہ و جبہ و دستار کو اک شہر تازہ کار کو کچھ ...

    مزید پڑھیے

    بدلنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا

    چلے تھے لوگ جب گھر سے تو اک وعدے کی تختی اپنی پیشانی پر رکھ کر لائے تھے جس کی گواہی میں سفر کو آگے بڑھنا تھا اور اس کے ساتھ خوابوں خواہشوں کے نام اس ویران گھر کو آگے بڑھنا تھا تو اک وعدے کی تختی تھی بہت دن تک جو روشن تھی سرابوں میں پرانی داستانیں جاگتی تازہ نصابوں میں بہت دن تک ہوا ...

    مزید پڑھیے

    زمین اپنے بیٹوں کو پہچانتی ہے

    زمین ایک مدت سے ہفت آسماں کی طرف سر اٹھائے ہوئے رو رہی ہے زمین اپنے آنسو بہت اپنی ہی کوکھ میں بو رہی ہے زمیں دل کشادہ ہے کتنی فلک کے اتارے ہوئے بوجھ بھی ڈھو رہی ہے فضا پر بہت دھند چھائی ہوئی ہے جواں گل بدن شاہزادے زمیں کے دلارے اجڑتی ہوئی بزم کے چاند تارے کٹی گردنوں گولیوں سے چھدے ...

    مزید پڑھیے

    آنسوؤں کے رتجگوں سے

    سارے منظر ایک جیسے ساری دنیا ایک سی ناشپاتی کے درختوں سے کھجوروں کی گھنی شاخوں تلک دنیا اچانک ایک جیسی ہو گئی ہے مصر کے اہرام کی محزوں فضائیں دم بخود ہیں کوفہ و بغداد کے بازار میں کاظمین و مشہد اعراق سے نوحے نکل کر سرحد لبنان تک پہنچے ہوئے ہیں شہر دلی کے اندھیرے ظلمت لاہور سے ...

    مزید پڑھیے

    میں البم کے ورق جب بھی الٹتا ہوں

    زمانے کھو گئے آئندہ و رفتہ کے میلے میں زمینیں گم ہوئیں پیکار ہست و نیست میں ایسی کوئی نقشہ مکانوں اور مکینوں تک پہنچنے کا ذریعہ بھی نہیں بنتا ہے تصویریں اب اپنی بستیوں میں دم بخود سہمی ہوئی نادم پڑی ہیں میں البم کے ورق جب بھی الٹتا ہوں تو کچھ آنسو کے قطرے جھلملاتے ہیں فسردہ ...

    مزید پڑھیے

    حویلی موت کی دہلیز پر

    حویلی موت کی دہلیز پر کب سے کھڑی ہے چاند نے بجھ کر ستاروں نے اداسی اوڑھ کر پھولوں نے خوشبو کا لبادہ پھینک کر ماحول پس از مرگ کا تیار کر ڈالا ہے بس اک آخری ہچکی کے سب ہیں منتظر سارے اعزا و اقارب نوحہ خوانی کے لیے تیار بیٹھے ہیں حویلی موت کی دہلیز پر کب سے کھڑی ہے اس کے مرنے میں اگر ...

    مزید پڑھیے

    رات ابھی آدھی گزری ہے

    رات ابھی آدھی گزری ہے شہر کی رونق بجھی نہیں ہے تھکے نہیں ہیں اس محفل کے ساز ابھی تک یاد کے بالا خانوں سے آتی ہے کچھ آواز ابھی تک میں کہ زوال شہر کا نوحہ لکھنے والا ایک پرانا قصہ گو ہوں علامتوں کے جنگل سے صندل کی لکڑی ہاتھ میں لے کر ایوانوں سے گزر رہا ہوں سازندے اب آخری تھاپ کی ...

    مزید پڑھیے

    ملاقاتیں نہیں پھر بھی ملاقاتیں

    سبو ٹوٹے محبت کی نمازوں میں وضو ٹوٹے دعا روئی دعا کے آسمانوں پر کئی چشمان و لب روئے کبھی کوئی سبب رونے کا نکلا ہے مگر ہم بے سبب روئے زمینوں اور زمانوں کی عجب رنجو گردش میں ہوا کے آستانے پر جھکائے سر پشیماں بے زباں تنہائیوں کے قافلے اترے وہی ہم تھے مجسم بندگی زخمی تماشے کے نشانے ...

    مزید پڑھیے

    عدم سے پرے

    وہ جگمگاتا ہوا شہر میری آنکھوں میں تمام رات لرزتا ہے آنسوؤں کی طرح کبھی سسکتا ہے ٹوٹے ہوئے مناروں میں کبھی ٹپکتا ہے آوازۂ بہار کی صورت حساب قطرۂ اشک آئینہ ستونوں کا مرے بجھے ہوئے چہرے کے سامنے آ کر پکارتا ہے چلے آؤ جان عہد گزشتہ وہ سائبان بہت انتظار کرتا ہے اجڑ گئی ہے تکلم کی ...

    مزید پڑھیے

    پرانی فائلوں میں گنگناتی شام

    اب ان بوسیدہ کاغذ کے پلندوں کی ضرورت کیا بچی ہے ان لفافوں پر پتے سارے پرانے ہو چکے ہیں ان کو رکھنا کس لیے بے رنگ تحریروں میں ڈوبے ان خطوں کی کیوں حفاظت چاہئے یہ پرانی فائلیں ضائع اگر ہو جائیں تو نقصان کیا ہے ہاتھ کیوں رکتے ہیں ان کاغذ کے ٹکڑوں کو جلانے میں اب ان کی معنویت کیا بچی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2