Ain Tabish

عین تابش

اہم معاصر شاعر، اپنی نظموں کے لیے معروف

Well-known contemporary poet

عین تابش کے تمام مواد

18 غزل (Ghazal)

    غبار جہاں میں چھپے باکمالوں کی صف دیکھتا ہوں

    غبار جہاں میں چھپے باکمالوں کی صف دیکھتا ہوں میں عہد گزشتہ کے آشفتگاں کی طرف دیکھتا ہوں میں سر کو چھپانے سے پہلے جہاں کا ہدف دیکھتا ہوں مہکتے ہوئے نیک پھولوں کو خنجر بکف دیکھتا ہوں ہے اندر تلک ایک نیزہ گلو میں کار وضو میں تو اس ہاؤ میں میں کہاں پر ہوں کس کی طرف دیکھتا ...

    مزید پڑھیے

    بزم خالی نہیں مہمان نکل آتے ہیں

    بزم خالی نہیں مہمان نکل آتے ہیں کچھ تو افسانے مری جان نکل آتے ہیں روز اک مرگ کا عالم بھی گزرتا ہے یہاں روز جینے کے بھی سامان نکل آتے ہیں سوچتا ہوں پر پرواز سمیٹوں لیکن کتنے بھولے ہوئے پیمان نکل آتے ہیں یاد کے سوئے ہوئے قافلے جاگ اٹھتے ہیں خواب کے کچھ نئے عنوان نکل آتے ...

    مزید پڑھیے

    کیسے افسوں تھے وہاں کیسے فسانے تھے ادھر

    کیسے افسوں تھے وہاں کیسے فسانے تھے ادھر زندگی تجھ سے تعلق کے بہانے تھے ادھر کیا عجب خواب کے خوشبو کے ٹھکانے تھے ادھر اب تو کچھ یاد نہیں کون زمانے تھے ادھر یہ نہیں یاد کہ وہ باغ تھا کس کوچے میں اس قدر یاد ہے کچھ پھول کھلانے تھے ادھر ایک بستی تھی ہوئی وقت کے اندوہ میں گم چاہنے ...

    مزید پڑھیے

    تابش یہ بھلا کون سی رت آئی ہے جانی

    تابش یہ بھلا کون سی رت آئی ہے جانی صحرا میں کوئی ریگ نہ دریا میں ہے پانی خلوت کدۂ دل پہ زبوں حالیٔ بسیار ہے صورت گنجینۂ الفاظ و معانی ہر چند ہوئی اس کے عوض دل کی خرابی کیا کہیے کہ بڑھتا رہا شوق ہمہ دانی مجھ سے مری روتی ہوئی آنکھیں تو نہ چھنیو رہنے دو مرے پاس مری کوئی ...

    مزید پڑھیے

    وہی جنوں کی سوختہ جانی وہی فسوں افسانوں کا

    وہی جنوں کی سوختہ جانی وہی فسوں افسانوں کا اڑا اڑا سا بجھا بجھا سا رنگ وہی دیوانوں کا دریا تو مانوس ہے اشک لہو کی خود سر موجوں سے دشت تجھے معلوم ہے سارا قصہ ان حیرانوں کا چاہت بھر امید رکھی ہے اور رستوں بھر پا مردی درویشوں کے چال چلن میں رنگ ہے سب سلطانوں کا ابھی نہیں تو آئندہ ...

    مزید پڑھیے

تمام

11 نظم (Nazm)

    پہلے تو شہر ایسا نہ تھا

    اک بار چل کر دیکھ لیں شاید گزشتہ موسموں کا کوئی اک دھندلا نشاں مل جائے اور پھر سے فضا شاداب ہو اجڑا ہوا اک خواب ہو تصویر میں کچھ گرد باد باقیات منبر و محراب ہو اک بار چل کر دیکھ لیں پھر بند ہوتے شہر کے بازار کو جھانکیں ذرا اجڑی دکانوں میں کلاہ و جبہ و دستار کو اک شہر تازہ کار کو کچھ ...

    مزید پڑھیے

    بدلنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا

    چلے تھے لوگ جب گھر سے تو اک وعدے کی تختی اپنی پیشانی پر رکھ کر لائے تھے جس کی گواہی میں سفر کو آگے بڑھنا تھا اور اس کے ساتھ خوابوں خواہشوں کے نام اس ویران گھر کو آگے بڑھنا تھا تو اک وعدے کی تختی تھی بہت دن تک جو روشن تھی سرابوں میں پرانی داستانیں جاگتی تازہ نصابوں میں بہت دن تک ہوا ...

    مزید پڑھیے

    زمین اپنے بیٹوں کو پہچانتی ہے

    زمین ایک مدت سے ہفت آسماں کی طرف سر اٹھائے ہوئے رو رہی ہے زمین اپنے آنسو بہت اپنی ہی کوکھ میں بو رہی ہے زمیں دل کشادہ ہے کتنی فلک کے اتارے ہوئے بوجھ بھی ڈھو رہی ہے فضا پر بہت دھند چھائی ہوئی ہے جواں گل بدن شاہزادے زمیں کے دلارے اجڑتی ہوئی بزم کے چاند تارے کٹی گردنوں گولیوں سے چھدے ...

    مزید پڑھیے

    آنسوؤں کے رتجگوں سے

    سارے منظر ایک جیسے ساری دنیا ایک سی ناشپاتی کے درختوں سے کھجوروں کی گھنی شاخوں تلک دنیا اچانک ایک جیسی ہو گئی ہے مصر کے اہرام کی محزوں فضائیں دم بخود ہیں کوفہ و بغداد کے بازار میں کاظمین و مشہد اعراق سے نوحے نکل کر سرحد لبنان تک پہنچے ہوئے ہیں شہر دلی کے اندھیرے ظلمت لاہور سے ...

    مزید پڑھیے

    میں البم کے ورق جب بھی الٹتا ہوں

    زمانے کھو گئے آئندہ و رفتہ کے میلے میں زمینیں گم ہوئیں پیکار ہست و نیست میں ایسی کوئی نقشہ مکانوں اور مکینوں تک پہنچنے کا ذریعہ بھی نہیں بنتا ہے تصویریں اب اپنی بستیوں میں دم بخود سہمی ہوئی نادم پڑی ہیں میں البم کے ورق جب بھی الٹتا ہوں تو کچھ آنسو کے قطرے جھلملاتے ہیں فسردہ ...

    مزید پڑھیے

تمام