بغیر سورج کے دن

بغیر سورج کے دن اداسی کا ترجماں ہے
بکھرتے پتوں نے مجھ سے پوچھا ہے تو کہاں ہے


درخت ہر سو اداس چہرے چراغ جیسے بجھے ہوئے ہیں
نہ عکس پانی میں مہ وشوں کے نہ رقص دل میں بہار جہاں ہے
ہوا کے نوحوں میں تیری خوشبو رچی ہوئی ہے
ہوا کے نوحوں نے مجھ سے پوچھا ہے تو کہاں ہے


بغیر سورج کے دن مری موت کا نشاں ہے
سسکتے لمحوں کا کارواں ہے
دراز راہوں کے نقش راہی جو اجنبی تھے جو اجنبی ہیں
خموشیوں کے کئی الاؤ جلے ہوئے ہیں
سلگتی آنکھوں نے مجھ سے پوچھا ہے تو کہاں ہے


یہ زندگی زندگی کا سایہ کہ خوف کی کوئی داستاں ہے
نفس نفس جس میں امتحاں ہے
نہ اب دریچے میں تیرا چہرہ نہ عارض و لب کا پھول کوئی
نہ تیری قامت کسی قیامت میں چپکے چپکے بدل رہی ہے
نہ اب شکایت نہ وہ حکایت نہ وہ روایت کے سلسلے ہیں
ستم یہی ہے کہ اب ستم دل کا ہم زباں ہے
تم کو لوگوں نے مجھ سے پوچھا ہے تو کہاں ہے
بغیر سورج کے دن اداسی کا ترجماں ہے