شب نامہ

طشت مہتاب میں ہجر کے خواب میں
دل جہاں بھی گیا
لمحہ لمحہ جلا
وصل کی خواہشیں
خاک میں خاک ہوتی رہیں
برگ گل نم زدہ غم زدہ غم زدہ
کہہ اٹھا میں چلا
اوس کے موتیوں کو ہوا کھا گئی
زخم آوارگی
دامن دل میں چپ چاپ ہنستا رہا
سب پرانے نئے کتنے موسم گئے
دھند کی اس طرف سارے منظر وہی
منتظر صف بہ صف
نیند میں کوئی چپ چاپ چلتا رہا
جس کو ملنا تھا کہیں
کوئی خندہ جبیں ایک چہرہ حسیں
وہ سفینہ سا امید کا غم کی تجدید کا
دور ہی دور ہوتا رہا
ہجر کا تاج سر پر سجاتے ہوئے
کوئی تنہا تھا تنہا ہے تنہا رہا