احمد شناس کی غزل

    میری راتوں کا سفر طور نہیں ہو سکتا

    میری راتوں کا سفر طور نہیں ہو سکتا تو نہ چاہے تو بیاں نور نہیں ہو سکتا میں نے ہجرت کے کئی دور کڑے دیکھے ہیں میں کتابوں سے کبھی دور نہیں ہو سکتا میری فطرت کہ میں کھل جاتا ہوں بے موسم بھی میری عادت کہ میں مجبور نہیں ہو سکتا تو نے کس شوق سے لکھا ہے تعارف میرا میں کسی لفظ میں محصور ...

    مزید پڑھیے

    لمحہ لمحہ روز و شب کو دیر ہوتی جائے گی

    لمحہ لمحہ روز و شب کو دیر ہوتی جائے گی یہ سفر ایسا ہے سب کو دیر ہوتی جائے گی سبز لمحوں کو اگانے کا ہنر بھی سیکھنا ورنہ اس رنگ طلب کو دیر ہوتی جائے گی اس ہوا میں آدمی پتھر کا ہوتا جائے گا اور رونے کے سبب کو دیر ہوتی جائے گی دیکھنا تیرا حوالہ کچھ سے کچھ ہو جائے گا دیکھنا شعر و ادب ...

    مزید پڑھیے

    کچھ شفق ڈوبتے سورج کی بچا لی جائے

    کچھ شفق ڈوبتے سورج کی بچا لی جائے رنگ امکاں سے کوئی شکل بنا لی جائے حرف مہمل سا کوئی ہاتھ پہ اس کے رکھ دو قحط کیسا ہے کہ ہر سانس سوالی جائے شہر ملبوس میں کیوں اتنا برہنہ رہیے کوئی چھت یا کوئی دیوار خیالی جائے ساتھ ہو لیتا ہے ہر شام وہی سناٹا گھر کو جانے کی نئی راہ نکالی ...

    مزید پڑھیے

    دشت امید میں خوابوں کا سفر کرنا تھا

    دشت امید میں خوابوں کا سفر کرنا تھا تو کہ اک لمحۂ ناپید بسر کرنا تھا ہم نے کیوں آپسی اضداد کے نکتے ڈھونڈے؟ ہم نے تو خود کو بہم شیر و شکر کرنا تھا نقش بنتا ہی نہیں سنگ سماعت پہ کوئی کند الفاظ کو پھر تیر و تبر کرنا تھا ساعت درد کہ بے چہرہ و بے نام رہی قطرۂ اشک کہ محفوظ گہر کرنا ...

    مزید پڑھیے

    یہاں ہر لفظ معنی سے جدا ہے

    یہاں ہر لفظ معنی سے جدا ہے حقیقت زندگی سے ماورا ہے ابھی چہرے کا خاکہ بن رہا ہے ابھی کچھ اور بھی میرے سوا ہے ہمیں جو کچھ ملا ناقص ملا ہے مگر خوش فہمیوں کی انتہا ہے کوئی چہرہ نہیں خوشبو کا لیکن تماشا پھول والوں کا لگا ہے میں اس کی بارشوں کا منتظر ہوں وہ مجھ سے میرے آنسو مانگتا ...

    مزید پڑھیے

    صبح وجود ہوں کہ شب انتظار ہوں

    صبح وجود ہوں کہ شب انتظار ہوں میں آشکار ہوں کہ پس آشکار ہوں ہر رنگ بے قرار ہوں ہر نقش ناتمام مٹی کا درد ہوں کہ ستاروں کا پیار ہوں کچھ تو مرے وجود کا حصہ ہے تیرے پاس ورنہ میں اپنے آپ میں کیوں انتظار ہوں اک اور آسمان چمکتا ہے خواب میں اک اور کائنات کا آئینہ دار ہوں تو نے مجھے ...

    مزید پڑھیے

    محبتوں کو کہیں اور پال کر دیکھو

    محبتوں کو کہیں اور پال کر دیکھو متاع جاں کو بدن سے نکال کر دیکھو بدل کے دیکھو کبھی نسبتوں کی دنیا کو بدن کو روح کے خانے میں ڈال کر دیکھو سنو اسے تو سماعت سے ماورا ہو کر جو دیکھنا ہو تو آنکھیں نکال کر دیکھو یقین دشت سے پھوٹے گا آب جو کی طرح کہ حرف ''لا'' کی گواہی بحال کر دیکھو نفس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2