یہاں ہر لفظ معنی سے جدا ہے

یہاں ہر لفظ معنی سے جدا ہے
حقیقت زندگی سے ماورا ہے


ابھی چہرے کا خاکہ بن رہا ہے
ابھی کچھ اور بھی میرے سوا ہے


ہمیں جو کچھ ملا ناقص ملا ہے
مگر خوش فہمیوں کی انتہا ہے


کوئی چہرہ نہیں خوشبو کا لیکن
تماشا پھول والوں کا لگا ہے


میں اس کی بارشوں کا منتظر ہوں
وہ مجھ سے میرے آنسو مانگتا ہے


یہی باعث ہے میری تشنگی کا
سمندر مجھ سے پانی مانگتا ہے


جہالت روگ تھا جو دل کے اندر
وہی مذہب ہمارا ہو گیا ہے


مقدس ہو گیا ہے جھوٹ میرا
مجھے تو اب اسی کا آسرا ہے


میں پیاسا ہوں پرانے موسموں کا
مگر اب وہ زمانہ جا چکا ہے


کہانی برگ سوزاں سے عبارت
وگرنہ بحر و بر بھی حاشیہ ہے


نہیں ہے خواب سی تصویر جس کی
تو پھر اس خواب کی تعبیر کیا ہے


گماں ہنگامہ آرائی کا عادی
یقیں تنہائیوں میں بولتا ہے


یہ دنیا بے خبر لوگوں کی احمدؔ
وہ دنیا کا نہیں جو جانتا ہے