احمد شناس کی غزل

    ہے واہموں کا تماشا یہاں وہاں دیکھو

    ہے واہموں کا تماشا یہاں وہاں دیکھو ہمارے پاس مکمل خدا کہاں دیکھو دل و دماغ کے اندر انا کی گونج سنو بلا سی کوئی لہو میں رواں دواں دیکھو نفس کا سانپ کہاں زیر ہونے والا ہے پھر اس کے بعد کوئی اور امتحاں دیکھو اب اپنے گھر کے لیے اک نئی زمیں سوچو زمیں کے سر پہ کوئی تازہ آسماں ...

    مزید پڑھیے

    جسم کے بیاباں میں درد کی دعا مانگیں

    جسم کے بیاباں میں درد کی دعا مانگیں پھر کسی مسافر سے روشنی ذرا مانگیں کھو گئے کتابوں میں تتلیوں کے بال و پر سوچ میں ہیں اب بچے کیا چھپائیں کیا مانگیں زعفرانی کھیتوں میں اب مکان اگتے ہیں کس طرح زمینوں سے دل کا رابطہ مانگیں ہم بھی ہو گئے شامل مصنوعی تجارت میں ہم کہ چہرہ ساماں ...

    مزید پڑھیے

    پھولوں میں ایک رنگ ہے آنکھوں کے نیر کا

    پھولوں میں ایک رنگ ہے آنکھوں کے نیر کا منظر تمام تر ہے یہ فصل ضمیر کا رشتہ وہ کیا ہوا مری آنکھوں سے نیر کا مدت ہوئی ہے حادثہ دیکھے ضمیر کا پانی اتر گیا تو زمیں سنگلاخ تھی تیکھا سا ہر سوال تھا رانجھے سے ہیر کا تیری اذاں کے ساتھ میں اٹھتا ہوں پو پھٹے سر میں لیے ہوئے کوئی سجدہ اسیر ...

    مزید پڑھیے

    امروز کی کشتی کو ڈبونے کے لیے ہوں

    امروز کی کشتی کو ڈبونے کے لیے ہوں کل اور کسی رنگ میں ہونے کے لیے ہوں تو بھی ہے فقط اپنی شہادت کا طلب گار میں بھی تو اسی درد میں رونے کے لیے ہوں جینے کا تقاضا مجھے مرنے نہیں دیتا مر کر بھی سمجھتا ہوں کہ ہونے کے لیے ہوں ہاتھوں میں مرے چاند بھی لگتا ہے کھلونا خوابوں میں فلک رنگ ...

    مزید پڑھیے

    مری آنکھوں میں آ دل میں اتر پیوند جاں ہو جا

    مری آنکھوں میں آ دل میں اتر پیوند جاں ہو جا میں بے نام و نشاں ہوں تو مرا نام و نشاں ہو جا کبھی تو آخر شب پھول سا کھل میرے آنگن میں کبھی میرے نواح جسم میں خوشبوئے جاں ہو جا تو میرے دشت حرف و صوت کو برگ خموشی دے تو میری آنکھ میں گم گشتۂ حیرت نشاں ہو جا مگر یہ ذات کا بن باس کب تک ...

    مزید پڑھیے

    بس اک جہان تحیر سے آنے والا ہے

    بس اک جہان تحیر سے آنے والا ہے وہ اجنبی مجھے اپنا بنانے والا ہے گلاب سنگ کی صورت دکھانے والا ہے کہاں کہاں وہ مجھے آزمانے والا ہے کوئی تو دیکھنے والا ہے میری آنکھوں سے کوئی تو ہے جو تماشہ دکھانے والا ہے یہ چاند اور ستارے تو اک بہانہ ہیں کچھ اور ہے جو یہاں جگمگانے والا ہے ہر ایک ...

    مزید پڑھیے

    یہ وقت روشنی کا مختصر ہے

    یہ وقت روشنی کا مختصر ہے ابھی سورج طلوع منتظر ہے شہادت لفظ کی دشوار تر ہے کتابوں میں بہت زیر و زبر ہے ابھی کھلنے کو ہے در آسماں کا ابھی اظہار کا پیاسا بشر ہے یہ دنیا ایک لمحے کا تماشہ نہ جانے دوسرا لمحہ کدھر ہے جو دیکھا ہے وہ سب کچھ ہے ہمارا جو ان دیکھا ہے وہ امید بھر ہے میں ...

    مزید پڑھیے

    زمانہ ہو گیا ہے خواب دیکھے

    زمانہ ہو گیا ہے خواب دیکھے لہو میں درد کا شب تاب دیکھے مناظر کو بہت مدت ہوئی ہے نگاہوں میں نیا اک باب دیکھے ستارہ شام کو جب آنکھ کھولے اچانک چاند کو پایاب دیکھے وہ چنگاری سی دے قربت کی مجھ کو تو پھر سورج کی آب و تاب دیکھے کئی راتیں ہوئیں کھڑکی میں گھر کی تعلق کا نیا مہتاب ...

    مزید پڑھیے

    تصور کو جگا رکھا ہے اس نے

    تصور کو جگا رکھا ہے اس نے دریچہ نیم وا رکھا ہے اس نے ذرا سا پھول میرے باغ میں ہے بہت کچھ ماورا رکھا ہے اس نے بنا دیکھے گواہی مانگتا ہے سوال اپنا جدا رکھا ہے اس نے مرے ہونے سے خود میرا تعلق بہ رنگ انتہا رکھا ہے اس نے مٹا دیتا ہے ہر تصویر میری مجھے اپنا بنا رکھا ہے اس نے ہماری ...

    مزید پڑھیے

    میں فتح ذات منظر تک نہ پہنچا

    میں فتح ذات منظر تک نہ پہنچا مرا تیشہ مرے سر تک نہ پہنچا اسے معمار لکھا بستیوں نے کہ جو پہلے ہی پتھر تک نہ پہنچا تجارت دل کی دھڑکن گن رہی ہے تعلق لطف منظر تک نہ پہنچا شگفتہ گال تیکھے خط کا موسم دوبارہ نخل پیکر تک نہ پہنچا بہت چھوٹا سفر تھا زندگی کا میں اپنے گھر کے اندر تک نہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2