لمحہ لمحہ روز و شب کو دیر ہوتی جائے گی

لمحہ لمحہ روز و شب کو دیر ہوتی جائے گی
یہ سفر ایسا ہے سب کو دیر ہوتی جائے گی


سبز لمحوں کو اگانے کا ہنر بھی سیکھنا
ورنہ اس رنگ طلب کو دیر ہوتی جائے گی


اس ہوا میں آدمی پتھر کا ہوتا جائے گا
اور رونے کے سبب کو دیر ہوتی جائے گی


دیکھنا تیرا حوالہ کچھ سے کچھ ہو جائے گا
دیکھنا شعر و ادب کو دیر ہوتی جائے گی


رفتہ رفتہ جسم کی پرتیں اترتی جائیں گی
کاغذی نام و نسب کو دیر ہوتی جائے گی


عام ہو جائے گا کاغذ کے گلابوں کا چلن
اور خوشبو کے سبب کو دیر ہوتی جائے گی


سارا منظر ہی بدل جائے گا احمدؔ دیکھنا
موسم رخسار و لب کو دیر ہوتی جائے گی