میری راتوں کا سفر طور نہیں ہو سکتا
میری راتوں کا سفر طور نہیں ہو سکتا
تو نہ چاہے تو بیاں نور نہیں ہو سکتا
میں نے ہجرت کے کئی دور کڑے دیکھے ہیں
میں کتابوں سے کبھی دور نہیں ہو سکتا
میری فطرت کہ میں کھل جاتا ہوں بے موسم بھی
میری عادت کہ میں مجبور نہیں ہو سکتا
تو نے کس شوق سے لکھا ہے تعارف میرا
میں کسی لفظ میں محصور نہیں ہو سکتا
میرے اندر بھی ترے نام کی چنگاری ہے
تو مرے واسطے کیوں طور نہیں ہو سکتا
جو یہاں لفظ کی سرحد کے ادھر رہتا ہے
بستیوں میں کبھی مشہور نہیں ہو سکتا
زندہ انساں اسے آباد کیا کرتے ہیں
گھر کسی خواب سے معمور نہیں ہو سکتا
گھر کے باہر سبھی لفظوں کے تماشائی ہیں
گھر کے اندر کوئی مسرور نہیں ہو سکتا
جسم کے سارے تقاضے ہیں ادھورے احمدؔ
یہ تصور کبھی بھرپور نہیں ہو سکتا