Afzal Minhas

افضل منہاس

افضل منہاس کی غزل

    میں اپنے دل میں نئی خواہشیں سجائے ہوئے

    میں اپنے دل میں نئی خواہشیں سجائے ہوئے کھڑا ہوا ہوں ہوا میں قدم جمائے ہوئے نئے جہاں کی تمنا میں گھر سے نکلا ہوں ہتھیلیوں پہ نئی مشعلیں جلائے ہوئے ہوا کے پھول مہکنے لگے مجھے پا کر میں پہلی بار ہنسا زخم کو چھپائے ہوئے نہ آندھیاں ہیں نہ طوفاں نہ خون کے سیلاب ہیں خوشبوؤں میں ...

    مزید پڑھیے

    چپ رہے تو شہر کی ہنگامہ آرائی ملی

    چپ رہے تو شہر کی ہنگامہ آرائی ملی اب اگر کھولے تو ہم کو قید تنہائی ملی زندگی کی ظلمتیں اپنے لہو میں رچ گئیں تب کہیں جا کر ہمیں آنکھوں کی بینائی ملی موسم گل کی نئی تقسیم حیراں کر گئی زخم پھولوں کو ملے کانٹوں کو رعنائی ملی سطح دریا پر ابھرنے کی تمنا ہی نہیں عرش پر پہنچے ہوئے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    کرب کے شہر سے نکلے تو یہ منظر دیکھا

    کرب کے شہر سے نکلے تو یہ منظر دیکھا ہم کو لوگوں نے بلایا ہمیں چھو کر دیکھا وہ جو برسات میں بھیگا تو نگاہیں اٹھیں یوں لگا ہے کوئی ترشا ہوا پتھر دیکھا کوئی سایہ بھی نہ سہمے ہوئے گھر سے نکلا ہم نے ٹوٹی ہوئی دہلیز کو اکثر دیکھا سوچ کا پیڑ جواں ہو کے بنا ایسا رفیق ذہن کے قد نے اسے ...

    مزید پڑھیے

    مٹتے ہوئے نقوش وفا کو ابھارئے

    مٹتے ہوئے نقوش وفا کو ابھارئے چہروں پہ جو سجا ہے ملمع اتارئیے ملنا اگر نہیں ہے تو زخموں سے فائدہ چھپ کر مجھے خیال کے پتھر نہ ماریے کوئی تو سرزنش کے لیے آئے اس طرف بیٹھے ہوئے ہیں دل کے مکاں میں جوارئیے ہاتھوں پہ ناچتی ہے ابھی موت کی لکیر جیسے بھی ہو یہ زیست کی بازی نہ ...

    مزید پڑھیے

    گہرا سکوت ذہن کو بے حال کر گیا

    گہرا سکوت ذہن کو بے حال کر گیا سوچوں کے پھول پھول کو پامال کر گیا سورج نے اپنی آنچ کو واپس بلا لیا لیکن مرے لہو کو وہ سیال کر گیا کیا فیصلہ دیا ہے عدالت نے چھوڑیئے مجرم تو اپنے جرم کا اقبال کر گیا جو لوگ دور تھے وہ بہت دور ہو گئے یہ تازہ حادثہ بھی گیا سال کر گیا سہمے ہوئے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    ہر چند زندگی کا سفر مشکلوں میں ہے

    ہر چند زندگی کا سفر مشکلوں میں ہے انساں کا عکس پھر بھی کئی آئنوں میں ہے تہذیب کو تلاش نہ کر شہر شہر میں تہذیب کھنڈروں میں ہے کچھ پتھروں میں ہے تجھ کو سکوں نہیں ہے تو مٹی میں ڈوب جا آباد اک جہان زمیں کی تہوں میں ہے کیسا تضاد ہے کہ فضا ہے دھواں دھواں اور آگ ہے کہ زیر زمیں خندقوں ...

    مزید پڑھیے

    سو ہاتھ اٹھے کرب کی خوشبو کو چرانے

    سو ہاتھ اٹھے کرب کی خوشبو کو چرانے کیا زخم لگائے ہیں مرے تن پہ ہوا نے رستے میں کوئی پیڑ جو مل جائے تو بیٹھوں وہ بار اٹھایا ہے کہ دکھنے لگے شانے آنکھوں میں بسی تھی ترے چہرے کی تمازت چلنے نہ دیا راہ میں زنجیر صدا نے چہرے تھے کہ مرقد کی طرح نوحہ بلب تھے کیا کیا نہ رلایا مجھے مانوس ...

    مزید پڑھیے

    گم صم ہوا کے پیڑ سے لپٹا ہوا ہوں میں

    گم صم ہوا کے پیڑ سے لپٹا ہوا ہوں میں کتبے پہ اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ہوں میں آنکھوں میں وسوسوں کی نئی نیند بس گئی سو جاؤں ایک عمر سے جاگا ہوا ہوں میں یا رب رگوں میں خون کی حدت نہیں رہی یا کرب کی صلیب پہ لٹکا ہوا ہوں میں اپنی بلندیوں سے گروں بھی تو کس طرح پھیلی ہوئی فضاؤں میں بکھرا ...

    مزید پڑھیے

    ایک پیکر یوں چمک اٹھا ہے میرے دھیان میں

    ایک پیکر یوں چمک اٹھا ہے میرے دھیان میں کوئی جگنو اڑ رہا ہو جس طرح طوفان میں ہر بگولہ بستیوں کی سمت لہرانے لگا آشنا چہرے بھی اب آتے نہیں پہچان میں کیا قیامت ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں زندگی تنہا کھڑی ہے حشر کے میدان میں وقت پڑتے ہی ہوئے روپوش سب حلقہ بگوش اک یہی خوبی تو ہے اس ...

    مزید پڑھیے

    مجھے بتلائیے اب کون سی جینے کی صورت ہے

    مجھے بتلائیے اب کون سی جینے کی صورت ہے زمانہ اس گھنے جنگل میں اک چیتے کی صورت ہے بکھرتے جسم لے کر تند طوفانوں میں بیٹھے ہیں کوئی ذرے کی صورت ہے کوئی ٹیلے کی صورت ہے چرا لایا تھا آنکھوں میں جو اک تصویر دنیا کی وہ اب صحرا میں اک سہمے ہوئے بچے کی صورت ہے مری تحریر کے ہر لفظ میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2