مٹتے ہوئے نقوش وفا کو ابھارئے

مٹتے ہوئے نقوش وفا کو ابھارئے
چہروں پہ جو سجا ہے ملمع اتارئیے


ملنا اگر نہیں ہے تو زخموں سے فائدہ
چھپ کر مجھے خیال کے پتھر نہ ماریے


کوئی تو سرزنش کے لیے آئے اس طرف
بیٹھے ہوئے ہیں دل کے مکاں میں جوارئیے


ہاتھوں پہ ناچتی ہے ابھی موت کی لکیر
جیسے بھی ہو یہ زیست کی بازی نہ ہاریے


شکوہ نہ کیجیئے ابھی اپنے نصیب کا
سانسوں کی تیز آنچ پہ ہر شب گزاریے


مسمار ہو گئی ہیں فلک بوس چاہتیں
شہر جفا سے اب نہ مجھے یوں پکاریے


پھولوں سے تازگی کی حرارت کو چھین کر
موسم کے زہر کے لیے گلشن سنوارئیے


رسوائیوں کا ہوگا نہ اب سامنا کبھی
جلدی سے آرزو کو لحد میں اتارئیے


افضلؔ یہ تیرگی کے مسافر کہاں چلے
جی چاہتا ہے ان پہ کئی چاند ماریے