Afzal Minhas

افضل منہاس

افضل منہاس کی غزل

    تڑپ رہا تھا میں جس درد لا دوا کے لئے

    تڑپ رہا تھا میں جس درد لا دوا کے لئے وہ مل گیا ہے مگر چھین لے خدا کے لئے میں بوند بوند ٹپکتا ہوں اپنے ہونٹوں پر چلا تھا لے کے یہ سرمایہ کربلا کے لئے فشار غم نے مجھے چور چور کر ڈالا کواڑ کھول دے سارے ذرا ہوا کے لئے کٹی ہوئی ہے مرے تازہ موسموں کی زباں کہاں سے لاؤں گا الفاظ اب دعا کے ...

    مزید پڑھیے

    گر پڑا تو آخری زینے کو چھو کر کس لیے

    گر پڑا تو آخری زینے کو چھو کر کس لیے آ گیا پھر آسمانوں سے زمیں پر کس لیے آئینہ خانوں میں چھپ کر رہنے والے اور ہیں تم نے ہاتھوں میں اٹھا رکھے ہیں پتھر کس لیے میں نے اپنی ہر مسرت دوسروں کو بخش دی پھر یہ ہنگامہ بپا ہے گھر سے باہر کس لیے عکس پڑتے ہی مصور کا قلم تھرا گیا نقش اک آب رواں ...

    مزید پڑھیے

    اپنے ماحول سے کچھ یوں بھی تو گھبرائے نہ تھے

    اپنے ماحول سے کچھ یوں بھی تو گھبرائے نہ تھے سنگ لپٹے ہوئے پھولوں میں نظر آئے نہ تھے درد زنجیر کی صورت ہے دلوں میں موجود اس سے پہلے تو کبھی اس کے یہ پیرائے نہ تھے چند بکھرے ہوئے ریزوں کے سوا کچھ بھی نہیں سوچتے ہیں کہ چٹانوں سے بھی ٹکرائے نہ تھے تو نے خود روز ازل ہم سے پناہیں ...

    مزید پڑھیے

    میں فقط اس جرم میں دنیا میں رسوا ہو گیا

    میں فقط اس جرم میں دنیا میں رسوا ہو گیا میں نے جس چہرے کو دیکھا تیرے جیسا ہو گیا چاند میں کیسے نظر آئے تری صورت مجھے آندھیوں سے آسماں کا رنگ میلا ہو گیا ایک میں ہی روشنی کے خواب کو ترسا نہیں آج تو سورج بھی جب نکلا تو اندھا ہو گیا یہ بھی شاید زندگی کی اک ادا ہے دوستو جس کو ساتھی ...

    مزید پڑھیے

    لوگ ہنسنے کے لیے روتے ہیں اکثر دہر میں

    لوگ ہنسنے کے لیے روتے ہیں اکثر دہر میں تلخیاں خود ہی ملا لیتے ہیں میٹھے زہر میں پیار کے چشموں کا پانی جب سے کھارا ہو گیا ساری دنیا گھر گئی ہے نفرتوں کے قہر میں وقت کہتا ہے ابھرتے ڈوبتے چہروں کو دیکھ آج تو رونق بڑی ہے حادثوں کی نہر میں جانے یہ حدت چمن کو راس آئے یا نہیں آگ جیسی ...

    مزید پڑھیے

    اس پیڑ کو چھوا تو ثمر دار ہو گیا

    اس پیڑ کو چھوا تو ثمر دار ہو گیا پھر جانے کیا ہوا وہ شرر بار ہو گیا موسم کی بھول تھی کہ مری دسترس کی بات پتھر سے ایک پھول نمودار ہو گیا بکھرے ہوئے ہیں دل میں مری خواہشوں کے رنگ اب میں بھی اک سجا ہوا بازار ہو گیا اک بار میں بھی خواب میں بیٹھا تھا تخت پر آنکھیں کھلیں تو اور بھی ...

    مزید پڑھیے

    کانچ کی زنجیر ٹوٹی تو صدا بھی آئے گی

    کانچ کی زنجیر ٹوٹی تو صدا بھی آئے گی اور بھرے بازار میں تجھ کو حیا بھی آئے گی عطر میں کپڑے بسا کر مطمئن ہے کس لئے با وفا ہو جا کہ یوں بوئے وفا بھی آئے گی دیکھ لے ساحل سے جی بھر کے مچلتی لہر کو اس طرف کچھ دیر میں موج فنا بھی آئے گی دودھیا نازک گلے میں باندھ لے تعویذ کو آج سنتا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    جو شخص بھی ملا ہے وہ اک زندہ لاش ہے

    جو شخص بھی ملا ہے وہ اک زندہ لاش ہے انساں کی داستان بڑی دل خراش ہے دامن دریدہ قلب و نظر زخم زخم ہیں اب شہر آرزو میں یہی بود و باش ہے بس اب تو رہ گئی ہے دکھاوے کی زندگی سانسوں کے تار تار میں ایک ارتعاش ہے مٹی نے پی لیا ہے حرارت بھرا لہو جوش نمو ملا تو بدن قاش قاش ہے کانٹوں نے بھی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2