سو ہاتھ اٹھے کرب کی خوشبو کو چرانے
سو ہاتھ اٹھے کرب کی خوشبو کو چرانے
کیا زخم لگائے ہیں مرے تن پہ ہوا نے
رستے میں کوئی پیڑ جو مل جائے تو بیٹھوں
وہ بار اٹھایا ہے کہ دکھنے لگے شانے
آنکھوں میں بسی تھی ترے چہرے کی تمازت
چلنے نہ دیا راہ میں زنجیر صدا نے
چہرے تھے کہ مرقد کی طرح نوحہ بلب تھے
کیا کیا نہ رلایا مجھے مانوس فضا نے
نغموں کے تعاقب میں نہ جاؤ کہ ابھی تک
انساں کو میسر ہی نہیں ہونٹ ہلانے
کیوں اتنے پریشان ہو عنواں کی طلب میں
کردار مکمل ہو تو بنتے ہیں فسانے
آنکھوں کے جھروکوں سے کسے ڈھونڈ رہے ہو
ہر نقش مٹا ڈالا ہے صحرا کی ہوا نے
دنیا میں یہی سوچ کے زندہ ہوں میں افضلؔ
احساس تو بخشا ہے مجھے میرے خدا نے