پرانے سب نظارے جا رہے ہیں
پرانے سب نظارے جا رہے ہیں نئے منظر ابھارے جا رہے ہیں ادھر ہے سرد مہری اور ادھر سے اشاروں پر اشارے جا رہے ہیں سفینہ ہو رہا ہے غرق طوفاں نگاہوں سے کنارے جا رہے ہیں نہیں باطن پہ اب کوئی توجہ فقط ظاہر سنوارے جا رہے ہیں شب غم میں رخ روشن کے جلوے اندھیروں کو نکھارے جا رہے ہیں کہیں ...