Afzaal Naveed

افضال نوید

معاصر پاکستانی شاعرو ں میں شامل

One of the contemporary poets from Pakistan

افضال نوید کی غزل

    باغ کیا کیا شجر دکھاتے ہیں

    باغ کیا کیا شجر دکھاتے ہیں ہم بھی اپنے ثمر دکھاتے ہیں آ تجھے بے خبر دکھاتے ہیں حالت نامہ بر دکھاتے ہیں کچھ مظاہر ہیں جو نگر میں ہمیں دوسرا ہی نگر دکھاتے ہیں روح مطلق میں عشق جذب ہوا عرش کا کام کر دکھاتے ہیں خود تو پہنچے ہوئے ہیں منزل پر پاؤں کو در بدر دکھاتے ہیں ہم کو مطلوب ...

    مزید پڑھیے

    خالی ہوا گلاس نشہ سر میں آ گیا

    خالی ہوا گلاس نشہ سر میں آ گیا دریا اتر گیا تو سمندر میں آ گیا یکجائی کا طلسم رہا طاری ٹوٹ کر وہ سامنے سے ہٹ کے برابر میں آ گیا جا کر جہاں پہ رکھا تھا ہونا کیا درست اتنا سا کام کر کے میں پل بھر میں آ گیا لیکن بڑائی کا کوئی احساس کب رہا چکر تھا دنیا داری کا چکر میں آ گیا آ جا کے ...

    مزید پڑھیے

    دکھائی دے کہ شعاع‌‌بصیر کھینچتا ہوں

    دکھائی دے کہ شعاع‌‌بصیر کھینچتا ہوں غبار کھینچ جگر کا لکیر کھینچتا ہوں دکھائی دیتا ہوں تنہا سفینے میں لیکن کنارے لگتے ہی جم غفیر کھینچتا ہوں مرے جلو سے کوئی کہکشاں نہیں بچتی میں کھینچنے پہ جو آؤں اخیر کھینچتا ہوں امڈ پڑی ہے جو یکسر خزاں کے دھارے سے گلابی نگہ ناگزیر کھینچتا ...

    مزید پڑھیے

    دشت تاریک تھا اور خواب تھا کالا میرا

    دشت تاریک تھا اور خواب تھا کالا میرا روشنی دیتا رہا کان کا بالا میرا کاٹنا تھا مجھے کوہ شب غربت لیکن ٹوٹ کر گرتا رہا راہ میں بھالا میرا تجھ کو معلوم نہ تھی چاک گریبانی مری تو نے اس دشت میں کیوں نام نکالا میرا آتشیں رکھتی ہے یاں گرمئ رفتار مجھے ہوں مہ خاک نشیں گرد ہے ہالا ...

    مزید پڑھیے

    اک دھن کو ایک دھن سے الگ کر لوں اور گاؤں

    اک دھن کو ایک دھن سے الگ کر لوں اور گاؤں سانسوں کا اک چراغ کہیں دھر لوں اور گاؤں گندھار کی شعاع چنوں پھر شعاعوں سے یاقوت سطح سنگ سے چن کر لوں اور گاؤں سرچشمۂ وجود کو ہرگز نہ چھیڑوں میں کوئل سے اک ارادۂ تیور لوں اور گاؤں بھیروں میں دن نکلتا دکھاؤں میں دہر کو اور صبح تک چراغوں کی ...

    مزید پڑھیے

    اپنے ہی تلے آئی زمینوں سے نکل کر

    اپنے ہی تلے آئی زمینوں سے نکل کر آ جاتا ہوں شاخوں پہ دفینوں سے نکل کر دروازے تھے کچھ اور بھی دروازے کے پیچھے برسوں پہ گئی بات مہینوں سے نکل کر سو جاتی ہے بستی تو مکاں پچھلی گلی میں تنہا کھڑا رہتا ہے مکینوں سے نکل کر کس صبح تماشا کا بچایا ہوا سجدہ رخ پر چلا آتا ہے جبینوں سے نکل ...

    مزید پڑھیے

    سیارگاں کی شب میں زمیں سا دیا تو ہے

    سیارگاں کی شب میں زمیں سا دیا تو ہے یہ خاک اجنبی سہی رہنے کی جا تو ہے آوارگی کا بوجھ تھا اس خاک پر بہت لیکن ہزار شکر کہ ہم سے اٹھا تو ہے یہ عرصۂ حیات اگرچہ ہے کم مگر پاؤں کسی مقام پر آ کر رکا تو ہے معلوم ہے مجھے کہ تماشا تو کچھ نہیں لیکن ہجوم میں کہیں تو بھی کھڑا تو ہے گلیوں کا ...

    مزید پڑھیے

    مکان خواب میں جنگل کی باس رہنے لگی

    مکان خواب میں جنگل کی باس رہنے لگی کوئی نہ آیا تو زینوں پہ گھاس رہنے لگی ترے وجود کا جب سے لباس رہنے لگی لیے دئیے ہوئے مجھ سے کپاس رہنے لگی یہ اور بات انوکھی سی پیاس رہنے لگی مری زبان پہ اس کی مٹھاس رہنے لگی جھلک تھی یا کوئی خوشبوئے خد و خال تھی وہ چلی گئی تو مرے آس پاس رہنے ...

    مزید پڑھیے

    دھنک میں سر تھے تری شال کے چرائے ہوئے

    دھنک میں سر تھے تری شال کے چرائے ہوئے میں سرمئی تھا سر شام گنگنائے ہوئے سمے کی لہر ترے بازوؤں میں لے آئی ہوا میں بحر تری سانس میں سمائے ہوئے طمانیت سے اٹھانا محال تھا مشعل میں دیکھنے لگا تھا اس کو سر جھکائے ہوئے سحر کی گونج سے آوازۂ جمال ہوا سو جاگتا رہا اطراف کو جگائے ...

    مزید پڑھیے

    مے سے وہ جام جسم ہے جب سے بھرا ہوا

    مے سے وہ جام جسم ہے جب سے بھرا ہوا سر ہے فتور خواہش شب سے بھرا ہوا دل ہے کہ جانتا ہے جنوں کا مآل بھی سر ہے کہ پھر بھی شور و شغب سے بھرا ہوا غفلت شعار دل پہ کوئی رات ڈال کر جاتا ہے مہر غیظ و غضب سے بھرا ہوا دیوار میکدہ کوئی رستے میں آ گئی ورنہ یہ جام ہے کوئی اب سے بھرا ہوا ہٹتا نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2