دشت تاریک تھا اور خواب تھا کالا میرا

دشت تاریک تھا اور خواب تھا کالا میرا
روشنی دیتا رہا کان کا بالا میرا


کاٹنا تھا مجھے کوہ شب غربت لیکن
ٹوٹ کر گرتا رہا راہ میں بھالا میرا


تجھ کو معلوم نہ تھی چاک گریبانی مری
تو نے اس دشت میں کیوں نام نکالا میرا


آتشیں رکھتی ہے یاں گرمئ رفتار مجھے
ہوں مہ خاک نشیں گرد ہے ہالا میرا


لا مکاں نے مجھے پھینکا ہے مکاں کی حد میں
کس سے پڑتا ہے یہاں دیکھیے پالا میرا


منزل عشق نہ خاک شب ہجراں میں ملی
جادۂ رنج میں کھنچتا رہا نالہ میرا


دست شفاف پہ لکھتا ہے مرا نام کوئی
شاخ سر سبز پہ کھلتا ہے اجالا میرا


مجھ کو گر کار محبت میں ذرا دیر ہوئی
آ گیا کرنے کوئی اور ازالہ میرا


پار کر جائے یہ شاید کسی دن جوئے خاک
جسم کو چاہیے کچھ اور سنبھالا میرا


شہر موجود دھواں ہے مرے بجھنے سے نویدؔ
شہر نابود میں رہتا ہے اجالا میرا