خالی ہوا گلاس نشہ سر میں آ گیا

خالی ہوا گلاس نشہ سر میں آ گیا
دریا اتر گیا تو سمندر میں آ گیا


یکجائی کا طلسم رہا طاری ٹوٹ کر
وہ سامنے سے ہٹ کے برابر میں آ گیا


جا کر جہاں پہ رکھا تھا ہونا کیا درست
اتنا سا کام کر کے میں پل بھر میں آ گیا


لیکن بڑائی کا کوئی احساس کب رہا
چکر تھا دنیا داری کا چکر میں آ گیا


آ جا کے منحصر رہا نگرانی پر تمام
اکثر سے جا رہا کبھی اکثر میں آ گیا


یک گوشۂ وجود میں رکھا قیام کچھ
باہر بڑا فساد تھا سو گھر میں آ گیا


ٹوٹا کہیں سے اور گرا صحن میں مرے
سارا پرندہ یوں لگا اس پر میں آ گیا


آواز دوں گا ساتھ مرے آ سکو تو آؤ
تھوڑا جو اور حالت بہتر میں آ گیا


دنیا کے خواب دیکھتے گزرا تمام روز
اٹھتے ہی خواب اصل سے دفتر میں آ گیا


جاگوں گا جب صدائے الوہی سنوں گا کچھ
جانوں گا جب پرندہ صنوبر میں آ گیا


شاید نظارے کی یہی بے ہیئتی رہی
منظر سے جانے پر کوئی منظر میں آ گیا


ہلنا پڑے نہ تاکہ کسی رنج پر مجھے
سارے کا سارا میں کسی پتھر میں آ گیا


خود کو قیام کرنے پہ ترغیب دوں گا میں
کوئی جو اسم کل مرے منتر میں آ گیا


بے مرتبہ بھی سانس کا لینا گراں نہ تھا
تقدیس کا خیال مقدر میں آ گیا


بازار میں نگاہ نہ دل پر پڑی تری
نایاب جنس دہر تھا وافر میں آ گیا


سیارگاں تو اپنی روش پر تھے گامزن
لیکن نویدؔ تو کہاں چکر میں آ گیا