مے سے وہ جام جسم ہے جب سے بھرا ہوا

مے سے وہ جام جسم ہے جب سے بھرا ہوا
سر ہے فتور خواہش شب سے بھرا ہوا


دل ہے کہ جانتا ہے جنوں کا مآل بھی
سر ہے کہ پھر بھی شور و شغب سے بھرا ہوا


غفلت شعار دل پہ کوئی رات ڈال کر
جاتا ہے مہر غیظ و غضب سے بھرا ہوا


دیوار میکدہ کوئی رستے میں آ گئی
ورنہ یہ جام ہے کوئی اب سے بھرا ہوا


ہٹتا نہیں نگاہ المناک سے کبھی
چہرہ کوئی خمار طرب سے بھرا ہوا