Afzaal Naveed

افضال نوید

معاصر پاکستانی شاعرو ں میں شامل

One of the contemporary poets from Pakistan

افضال نوید کی غزل

    ایک اجلی امنگ اڑائی تھی

    ایک اجلی امنگ اڑائی تھی ہم نے تم نے پتنگ اڑائی تھی شام بارش میں تیرے چہرے سے ابر نے قوس رنگ اڑائی تھی میں نے بچپن کی خوشبوئے نازک ایک تتلی کے سنگ اڑائی تھی اپنی ہی ازرہ تفنن طبع دھجیٔ نام و ننگ اڑائی تھی خواب نے کس خمار کی خاشاک درمیان پلنگ اڑائی تھی کوئی بیرونی آنچ تھی جس ...

    مزید پڑھیے

    خمار شب میں زمیں کا چہرہ نکھر رہا تھا

    خمار شب میں زمیں کا چہرہ نکھر رہا تھا کوئی ستاروں کی پالکی میں اتر رہا تھا نہا رہے تھے شجر کسی جھیل کے کنارے فلک کے تختے پہ چاند بیٹھا سنور رہا تھا ہوائیں دیوار و در کے پیچھے سے جھانکتی تھیں دھواں لپیٹے کوئی گلی سے گزر رہا تھا کھڑا تھا میری گلی سے باہر جہان سارا میں خواب میں ...

    مزید پڑھیے

    سبو اٹھاؤں تو پینے کے بیچ کھلتی ہے

    سبو اٹھاؤں تو پینے کے بیچ کھلتی ہے کوئی گلی میرے سینے کے بیچ کھلتی ہے تمام رات ستارے تلاش کرتے ہیں وہ چاندنی کسی زینے کے بیچ کھلتی ہے تو دیکھتا ہے تو تشکیل پانے لگتا ہوں مری بساط نگینے کے بیچ کھلتی ہے گرفت ہوش نہیں سہل دست برداری گرہ یہ سخت قرینے کے بیچ کھلتی ہے کنارۂ مہ و ...

    مزید پڑھیے

    ہے اسی شہر کی گلیوں میں قیام اپنا بھی

    ہے اسی شہر کی گلیوں میں قیام اپنا بھی ایک تختی پہ لکھا رہتا ہے نام اپنا بھی بھیگتی رہتی ہے دہلیز کسی بارش میں دیکھتے دیکھتے بھر جاتا ہے جام اپنا بھی ایک تو شام کی بے مہر ہوا چلتی ہے ایک رہتا ہے ترے کو میں خرام اپنا بھی کوئی آہٹ ترے کوچے میں مہک اٹھتی ہے جاگ اٹھتا ہے تماشا کسی ...

    مزید پڑھیے

    آنچل میں نظر آتی ہیں کچھ اور سی آنکھیں

    آنچل میں نظر آتی ہیں کچھ اور سی آنکھیں چھا جاتی ہیں احساس پہ بلور سی آنکھیں رہتی ہے شب و روز میں بارش سی تری یاد خوابوں میں اتر جاتی ہیں گھنگھور سی آنکھیں پیمانے سے پیمانے تلک بادۂ لعلیں آغاز سے انجام تلک دور سی آنکھیں لے کر کہاں رہتی رہی موتی سی وہ صورت لے کر کہاں پھرتا رہا ...

    مزید پڑھیے

    رہ سلوک میں بل ڈالنے پہ رہتا ہے

    رہ سلوک میں بل ڈالنے پہ رہتا ہے لہو کا کھیل خلل ڈالنے پہ رہتا ہے یہ دیکھتا نہیں بنیاد میں ہیں ہڈیاں کیا ہر ایک اپنا محل ڈالنے پہ رہتا ہے مہم پہ روز نکلتا ہے تاجر بارود اور ایک خوف اجل ڈالنے پہ رہتا ہے اور ایک ہاتھ ملاتا ہے زہر پانی میں اور ایک ہاتھ کنول ڈالنے پہ رہتا ہے اور ایک ...

    مزید پڑھیے

    نہ رونا رہ گیا باقی نہ ہنسنا رہ گیا باقی

    نہ رونا رہ گیا باقی نہ ہنسنا رہ گیا باقی اک اپنے آپ پر آوازے کسنا رہ گیا باقی ہماری خود فراموشی یہ دنیا جان جائے گی ذرا سا اور اس دلدل میں دھنسنا رہ گیا باقی ہوس کے ناگ نے دن رات رکھا اپنے چنگل میں بہت کھیلا ہمارے تن سے ڈسنا رہ گیا باقی کسی کے پیار کا قصہ ادھورا چھوڑ آئے ...

    مزید پڑھیے

    پانی شجر پہ پھول بنا دیکھتا رہا

    پانی شجر پہ پھول بنا دیکھتا رہا اور دشت میں ببول بنا دیکھتا رہا ایام کے غبار سے نکلا تو دیر تک میں راستوں کو دھول بنا دیکھتا رہا تو بازوؤں میں بھر کے گلابوں کو سو رہی میں بھی خزاں کا پھول بنا دیکھتا رہا کونپل سے ایک لب سے فراموش ہو کے میں کس گفتگو میں طول بنا دیکھتا رہا بادہ ...

    مزید پڑھیے

    جنگ سے جنگل بنا جنگل سے میں نکلا نہیں

    جنگ سے جنگل بنا جنگل سے میں نکلا نہیں ہو گیا اوجھل مگر اوجھل سے میں نکلا نہیں دعوت‌ افتاد رکھی چھل سے میں نکلا نہیں نکلے بھی کس بل مگر کس بل سے میں نکلا نہیں دیکھتے رہنا ترا مسحور چھت پر کر گیا اس قدر بارش ہوئی جل تھل سے میں نکلا نہیں جیسے تو ہی تو ہو میری نیند سے لپٹا ہوا جیسے ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے کچھ پنکھ جو دالان میں رکھ چھوڑے ہیں

    ہم نے کچھ پنکھ جو دالان میں رکھ چھوڑے ہیں پنچھی آ جائیں گے اس دھیان میں رکھ چھوڑے ہیں سربلندی ہو کہ اے رہ گزر دل ہم نے سارے جھگڑے ہی تری شان میں رکھ چھوڑے ہیں ایسا آشوب توازن تھا کہ پتھر سارے کھینچ کر پلۂ میزان میں رکھ چھوڑے ہیں سوچتا ہوں کہ وہ ایمان ہی لے آئے کبھی رخنے کچھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2