سیارگاں کی شب میں زمیں سا دیا تو ہے
سیارگاں کی شب میں زمیں سا دیا تو ہے
یہ خاک اجنبی سہی رہنے کی جا تو ہے
آوارگی کا بوجھ تھا اس خاک پر بہت
لیکن ہزار شکر کہ ہم سے اٹھا تو ہے
یہ عرصۂ حیات اگرچہ ہے کم مگر
پاؤں کسی مقام پر آ کر رکا تو ہے
معلوم ہے مجھے کہ تماشا تو کچھ نہیں
لیکن ہجوم میں کہیں تو بھی کھڑا تو ہے
گلیوں کا شور و غل ہے مرے ساتھ آج بھی
وہ دن گزر گئے مگر آواز پا تو ہے
وہ رہ گزر مہکتی ہے خوش ہوں یہ جان کر
گر میں نہیں تو کیا ہے کوئی دوسرا تو ہے
یہ بھی مآل خواہش دل ہے کہ آج وہ
بادل کو دیکھ کر سہی چھت پر چڑھا تو ہے
آ جائے گا نویدؔ وہ اک روز راہ پر
اچھا ہے اپنی راہ سے بھٹکا ہوا تو ہے