آفتاب شمسی کی نظم

    ہجرت

    بہت دنوں سے مجھے انتظار ہے لیکن تمہارے شہر سے کوئی یہاں نہیں آیا میں سوچتا ہوں تو بس یہ کہ اب تمہاری شکل گزرتے وقت کے ہاتھوں بدل گئی ہوگی خمیدہ زلفوں کی کالی گھٹا میں اب شاید سفید بالوں کی تعداد بڑھ گئی ہو گی تمہارے گال پہ جو ایک تل چمکتا تھا پتہ نہیں وہ چمک اس میں اب بھی باقی ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ

    کھڑکی کے شیشے سے چھن کر کمرے میں آ جاتی ہے میز کی تصویروں کو اپنے ہاتھوں سے چمکاتی ہے ساری کتابوں کے چہروں کو اجلا کرتی جاتی ہے پھر میرے بستر سے مجھ کو اٹھنے پر اکساتی ہے میں روز اپنے خواب ادھورے چھوڑ کے باہر جاتا ہوں!

    مزید پڑھیے

    میلہ

    آدمیوں کے اس میلے میں وقت کی انگلی پکڑے پکڑے جانے کب سے گھوم رہا ہوں کبھی کبھی جی میں آتا ہے اس میلے کو چھوڑ کے میں بھی ان ٹیڑھی راہوں پر جاؤں دور سے جو سیدھی لگتی ہیں لیکن جانے کیوں اک سایہ رستہ روک کے کہہ دیتا ہے وقت کے ساتھ نہ چلنے والے مرتے دم تک پچھتاتے ہیں آدمیوں کے میلے میں ...

    مزید پڑھیے

    رات، معمول اور ہم

    اپنے سائے سے بھی گھبرائیں گے ایک پل چین نہیں پائیں گے سوچتے سوچتے تھک جائیں گے ہانپتے کانپتے چل کر آخر تیرے دروازے پہ دستک دیں گے تو ہمیں دیکھ کے مغموم و ملول اپنی بانہوں کا سہارا دے گی اور ہم چین سے سو جائیں گے کل یہ سایہ ہمیں پھر گھیرے گا کل یہی فکر ہمیں کھائے گی اور ہم پھر اسی ...

    مزید پڑھیے

    نرس

    شہر کے ہسپتال میں اس کو ایک ہفتہ ہوا ہے آئے ہوئے ''سات نمبر'' کا کانا ٹھیکیدار کانپتا تھا جو دیکھ کر نشتر اس کے زخموں پہ آج کل وہ خود اپنے ہاتھوں سے پھائے رکھتی ہے لنگڑا بدھ سین ''گیارہ نمبر'' کا اس کی آنکھوں میں ڈال کر آنکھیں گھونٹ کڑوی دوا کے پیتا ہے ''پانچ نمبر'' کا دق زدہ شاعر دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    مداوا

    بھرے بازار میں اک شخص اب تک اسے مڑ مڑ کے دیکھے جا رہا ہے نہیں اتنی بھی سدھ باقی کہ سوچے یہ کب کا واقعہ یاد آ رہا ہے عیاں صورت سے ہے اس کی کہ جیسے زمیں پیروں کے نیچے ہل گئی ہو کوئی شے جو کبھی گم ہو گئی تھی اچانک راستے میں مل گئی ہو!

    مزید پڑھیے

    تضاد

    زمین گھومتی ہے روز اپنے محور پر فلک کھڑا ہے اسی طرح سر اٹھائے ہوئے دنوں کے پیچھے لگی ہیں اسی طرح راتیں سفر ہے جاری اسی طرح اب بھی لمحوں کا ہوا کے دوش پہ خوشبو کے قافلے اب بھی رتیں بدلنے کا پیغام لے کے آتے ہیں ہمارے بیچ مگر فاصلے جو قائم ہیں کسی طرح نہیں کم ہوتے بڑھتے جاتے ہیں!

    مزید پڑھیے

    یادیں

    رات کے گہرے سناٹے میں میں گھر کے آنگن میں تنہا چاند کو کب سے دیکھ رہا ہوں دل کی دیواروں کو کب سے غم کی دیمک چاٹ رہی ہے ذہن کے لمبے سے کمرے میں میرے ماضی کی الماری جس کے دونوں ہی در وا ہیں غور سے مجھ کو دیکھ رہی ہے جی میں یہ آتا ہے میرے ماضی کی اس الماری سے جس میں بری بھلی سب ...

    مزید پڑھیے

    آخری سفر

    مستقبل کی جھولی میں ہم گرتے رہیں گے دانہ دانہ ماضی کی لمبی ڈوری سے کٹتے رہیں گے لمحہ، لمحہ آخر اک دن دھاگے میں بکھرے دانے ٹوٹے لمحوں کا ہار پرو کر طاق میں تم سب رکھ دوگے!

    مزید پڑھیے

    شکست

    بالکنی سے باہر جھانکا آئینے میں صورت دیکھی لپ اسٹک سے ہونٹ سنوارے اپنی گھڑی کو جھوٹا سمجھا باہر آ کر وقت ملایا وقت کو بھی جب سچا پایا غصے میں دانت اپنے پیسے ریشم جیسے بال کھسوٹے سارے خط چولھے میں جھونکے آئینے پر پتھر مارا اتنے میں پھر آہٹ پائی دوڑی دوڑی باہر آئی لیکن خود کو تنہا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2